اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بابت تیار کیے گئے ایک مسودہ قانون پر پاکستان کے مختلف سماجی حلقے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔
ملکی قوانین کو شریعت کے مطابق بنانے کے لیے قائم مشاورتی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل نے رواں ہفتے ایک مسودے کو تقریباً حتمی شکل دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بیوی کی طرف سے نافرمانی پر شوہر اسے ہلکی سزا دے سکتا ہے۔
مسودے میں کئی دیگر شقیں بھی موجود ہیں لیکن خاص طور پر تادیب کے لیے عورت کو ہلکی سزا کی مجوزہ شق کو سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر لوگوں کی طرف سے خوب تنقید اور طنز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اپنے ایک تازہ بیان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے مسودہ قانون کی مذمت کرتے ہوئے اس کی سفارشات پر کڑی تنقید کی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ "کوئی بھی ذی شعور شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ پاکستان میں خواتین پر تشدد کی طرف مائل کرنے کی اس سے زیادہ کوئی حوصلہ افزا توجیہ ہوسکتی ہے۔"
کونسل نے اپنی مسودے میں عورتوں کے حق ملکیت کو تسلیم کرنے کے علاوہ قرآن سے عورتوں کی شادی اور غیرت کے نام پر قتل کو قابل تعزیر جرم قرار دیا ہے، جس پر انسانی حقوق کمیشن کا کہنا تھا کہ اس کو پہلے ہی پاکستان کے آئین اور قانون میں تسلیم کیا جا چکا ہے۔
کمیشن نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کونسل کے ارکان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ آئین کے مطابق پاکستان میں اسلام کے منافی کوئی بھی قانون بنانے پر ممانعت کے تناظر میں اس کونسل کی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔
رواں سال کے اوائل میں صوبہ پنجاب کی اسمبلی نے خواتین کے تحفظ کا قانون منظور کیا تھا جسے اسلامی نظریاتی کونسل نے مسترد کرتے ہوئے اپنی طرف سے ایک مسودہ قانون تیار کیا۔
کونسل کے چیئرمین مولانا محمد شیرانی کا کہنا ہے کہ وہ یہ سفارشات قانون سازوں کو بھیجیں گے کیونکہ ان کے بقول پنجاب اسمبلی کو قانون منظور کرنے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے مشورہ کرنا چاہیے تھے۔
تاہم پنجاب حکومت کے عہدیداروں کے بقول قانون کی تیاری میں علمائے دین سے بھی رائے لی گئی تھی اور وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کرنے کے پابندی نہیں۔
1962ء میں قائم کی گئی یہ کونسل پارلیمان کو اپنی سفارشات دے سکتی ہے لیکن اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا پارلیمان کی صوابدید ہے۔