علی رانا
سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کی سماعت میں کہا ہے کہ نیب کہانیوں کی بجائے ثبوت پیش کر ے۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پاناما جے آئی ٹی نے تو حدیبیہ کیس سے متعلق اپنی رائے دی ہے، اس معاملے میں مجرمانہ عمل کیا ہے وہ بتا دیں، ممکن ہے یہ انکم ٹیکس کا معاملہ ہو۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حدیبیہ کیس کھولنے کے لئے نیب کی اپیل کی سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا حدیبیہ کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے پاناما مقدمے کے فیصلے میں ہدایات تھیں، اور کیا جے آئی ٹی سفارشات پر عدالت نے حدیبیہ کیس سے متعلق کوئی ہدایت دیں۔ وکیل نیب عمران الحق نے کہا کہ حدیبیہ کا ذکر پاناما فیصلے میں نہیں۔
جسٹس قاضي فائز عیسیٰ نے کہا کہ پیسے اِدھر چلے گئے، اُدھر چلے گئے یہ کہانیاں ہیں۔ استغاثہ نے چارج بتانا ہوتا ہے۔ بیانات چھوڑیں اور شواہد پیش کریں۔ ملزمان پر لگایا جانے والا الزام بتائیں۔ ممکن ہے یہ سیاہ دھن یا انکم ٹیکس کا کیس ہو۔
بینچ کے سربراہ جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ پاناما فیصلے کو حدیبیہ کے ساتھ کیسے جوڑیں گے۔ جسٹس قاضي فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاناما جے آئی ٹی نے تو حدیبیہ کیس سے متعلق اپنی رائے دی ہے. اس معاملے میں مجرمانہ عمل کیا ہے وہ بتادیں۔ ممکن ہے یہ انکم ٹیکس کا معاملہ ہو۔
نیب کے وکیل عمران الحق نے بتایا کہ 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد تمام فارن کرنسی اکاؤنٹس منجمد کردئیے گئے تھے، فارن اکاؤنٹ منجمد کرنے سے قبل ملزمان نے اپنا پیسہ نکلوالیا تھا۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ 1992 سے آج 2017 آگیا ہے، ابھی بھی ہم اندھیرے میں ہیں، الزامات واضح ہونے چاہئیں، صدیقہ کے اکاؤنٹ سے پیسے کس نے نکلوائے نام بتائیں۔ وکیل نیب نے کہا کہ اسحاق ڈار نے ان رقوم کو نکلوانے کا اعتراف کیا۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ایسی صورت میں تو متعلقہ دستاویزات ہمارے سامنے ہونی چاہئیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ نیب کو بہت سارے قانونی لوازمات بھی پورے کرنے تھے۔ نہ جے آئی ٹی نے کچھ کیا ، نہ آپ نے کچھ کیا۔ کیا حدیبیہ کے ڈائریکٹرز کو تمام سوالات دیئے گئے؟، آرٹیکل 13 کو بھی ہم نے مدنظر رکھنا ہے۔ وکیل نیب عمران الحق نے بتایا کہ ہم نے ملزمان کو سوال نامہ بھیجا مگر جواب نہیں دیے گئے۔ جسٹس مشیر عالم نے نیب وکیل سے کہا کہ آپ کو مکمل منی ٹریل ثابت کرنا ہے۔
جسٹس قاضي فائز عیسیٰ نے کہا کہ سب باتیں مان لیں تب بھی نیب نے مجرمانہ عمل بتانا ہے۔ نیب سیکشن 9 اے کے تحت تو آپ کوئی بات کر نہیں رہے۔
وکیل نیب نے کہا کہ عدالت اجازت دے تو اسحاق ڈار کا بیان پڑھوں۔ جسٹس قاضي فائز نے کہا کہ اسحاق ڈار کے بیان کو کس قانون کے تحت کسی دوسرے شخص کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس مشیرعالم نے پوچھا کہ کیا اسحاق ڈار کے بیان کو کاؤنٹر چیک کیا گیا۔ جس پر وکیل نیب عمران الحق نے کہا کہ اسحاق ڈار کے بیان کی تصدیق کی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ قانونی طور پر اسحاق ڈار کا بیان عدالت یا چیئرمین نیب کے سامنے لیا جانا چاہیے تھا۔
کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔
قبل ازیں حدیبیہ کیس میں شاہ خاور ایڈووکیٹ کو اسپیشل پراسیکیوٹر نیب مقرر کردیا گیا۔ نیب نے اس حوالے سے صدر ممنون حسین کو سمری ارسال کی تھی جو انہوں نے منظور کرلی۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ میں حدیبیہ کیس دوبارہ کھولنے کے لئے اپیل دائر کی ہے جس کی سماعت کل سے شروع ہوئی تھی۔ گذشتہ روز نیب نے کیس میں پیروی کے لیے اسپیشل پراسیکیوٹر کا تقرر نہ ہونے کی وجہ سے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا۔
حدیبیہ کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کا نام لیا جا رہا ہے۔ اس کیس میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر الزام ہے کہ انہوں نے منی لانڈرنگ سے متعلق مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا تھا جس میں انہوں نے شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کا الزام تسلیم کیا تھا۔