|
" میں جابرانہ پابندیوں کو ہٹانے کی کوششوں سے باز نہیں آؤں گا۔ مستقبل کے بارے میں پر امید ہوں،"مسعود پزشکیان نے منگل کے روز ایران کے نئے صدر کی حیثیت سے اپنے عہدہ کا حلف اٹھانے کے بعد کہا۔
اصلاح پسند سیاست دان اور ہارٹ سرجن نے عہد کیا کہ ان کی انتظامیہ تہران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر مغرب کی طرف سے عائد اقتصادی پابندیوں کو ہٹانے کی کوشش جاری رکھے گی۔
پزشکیان نے دارالحکومت تہران میں پارلیمنٹ میں حلف اٹھانے کے بعد اپنی تقریر میں کہا کہ وہ دنیا کے ساتھ اقتصادی تعلقات معمول پر لانے کو ایران کا ناقابل تنسیخ حق سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ جابرانہ پابندیوں کو ہٹانے کی کوششیں جاری رکھیں گے اور یہ کہ وہ مستقبل کے بارے میں پر امیدہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اتوار کے روز پزشکیان کے عہدہ کی باضابطہ توثیق کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ پڑوسیوں، افریقی اور ایشیائی ملکوں کے ساتھ ساتھ ان ممالک کو ترجیح دیں جنہوں نے تہران کی خارجہ تعلقات کی پالیسیوں میں ایران کی "حمایت اور مدد" کی ہے۔
پزشکیان کے پیشرو ابراہیم رئیسی مئی میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد ہواتھا۔
طویل عرصے سے قانون ساز پزشکیان نے جولائی میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اب پارلیمنٹ میں اعتماد کے ووٹ کے حصول کےلیے ان کے پاس اپنی کابینہ تشکیل دینے کے لیے دو ہفتے ہیں۔
مغرب کی پابندیوں کے ایرانی معیشت پر اثرات
بین الاقوامی پابندیوں نے ایران کی تیل کی اہم برآمدات کو شدید متاثر کیا ہے، انٹرنیشنل بینکنگ نیٹ ورکس پر لین دین کو روکا ہے اور ملک میں افراط زر میں اضافہ ہوا ہے، جو اس وقت تقریباً 40 فیصد ہے۔
ایران میں ڈالر کا تبادلہ 584,000 ایرانی ریال میں ہو رہا ہے، جو ملکی کرنسی کی قدر میں ڈرامائی کمی ہے۔
جب ایران کا عالمی طاقتوں کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدہ ہوا تھا، اس وقت ایرانی ریال کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 32,000 تھی۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر امریکہ کو 2018 میں ایران جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا۔
ایران نے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کی ہے، تاہم تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے یا اقتصادی پابندیاں ہٹانے کے حوالے سے کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوئی۔
SEE ALSO: یورپ کے ساتھ تعمیری بات چیت کے لیے تیار ہیں: نومنتخب ایرانی صدرایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے اور یہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے نہیں بلکہ بجلی پیدا کرنے اور کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے ریڈیوآئسوٹوپس تیار کرنے کے لیے ہے ۔
پزشکیان نے کہا کہ "دباؤ اور پابندیاں ایرانی قوم پر کارگر ثابت نہیں ہونگی۔
حلف برداری میں عسکریت پسند فلسطینی رہنماؤں کی شرکت
پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں 70 سے زیادہ ملکوں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ جوہری مذاکرات کے یورپی یونین کے کوآرڈینیٹر اینریک مورا نے بھی شرکت کی۔ تاجکستان کے صدر امام علی رحمان، اور فلسطینی عسکریت پسند گروپوں سے تعلق رکھنے والے ایران کے اتحادیوں، جن میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور اسلامی جہاد کے زیاد النخلیح شامل تھے۔
تہران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی ہتھیاروں کی تیاری کے قریب ترین درجے پر آنے پر مغرب کو خدشہ ہے، اگر تہران نے انتخاب کیا تو کئی جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے اس کے پاس کافی ذخیرہ ہے۔
اپریل میں، ایران نے غزہ میں جنگ کے سلسلے میں اسرائیل پر اپنا پہلا براہ راست حملہ کیا، جبکہ تہران کے مسلح کردہ ملیشیا گروپ، جیسے کہ لبنانی حزب اللہ اور یمن کے حوثی باغی بھی لڑائی میں مصروف ہیں اور انھوں نے اپنے حملوں کو بڑھا دیا ہے۔
اپنی تقریر میں پزشکیان نے فلسطینیوں کی حمایت میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "ایران ایک ایسی دنیا کا مطالبہ کرتا ہے جہاں کسی فلسطینی بچے کے خواب اس کے گھر کے ملبے کے نیچے نہ دب جائیں۔"
پزشکیان نے کہا کہ "ہم ایک ایسی دنیا کے خواہاں ہیں جہاں فلسطین کے قابل فخر لوگوں کو قبضے، جبر اور قید سے آزاد کیا جائے۔"
یہ رپورٹ اے پی کی معلومات پر مبنی ہے۔