ہیومن رائٹس واچ نے دعویٰ کیا ہے کہ اگست میں صوبہ اذقیہ پر حزب مخالف کے مسلح افراد نے مبینہ طور پر کم از کم 190 شہریوں کو ہلاک کیا اور 200 سے زائد کو یرغمال بنایا جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔
انسانی حقوق کے ایک موقر گروپ نے شام میں باغیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ صدر بشار الاسد کی حامی فورسز کے زیر قبضہ ایک علاقے پر حالیہ حملے میں انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے دعویٰ کیا ہے کہ اگست میں صوبہ اذقیہ پر حزب مخالف کے مسلح افراد نے مبینہ طور پر کم از کم 190 شہریوں کو ہلاک کیا اور 200 سے زائد کو یرغمال بنایا جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔
نیو یارک میں قائم اس گروپ نے اپنی ایک ریورٹ میں کہا ہے کہ اسد کے حامی 10 علویہ دیہاتوں پر ہونے والے حملوں میں کم از کم 67 افراد کو پھانسی دے کر یا غیر قانونی طور پر جان سے مارا گیا۔ رپورٹ کے مطابق بعض موقعوں پر پورے کے پورے خاندان کو ہی ہلاک کر دیا گیا۔
تفتیش سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ان حملوں میں کم از کم 20 مسلح گروپ نے حصہ لیا۔ ان میں ’جبھة النصرہ‘ اور ’اسلامی ریاست عراق و شام ‘ سمیت پانچ اسلامی گروپ زیادہ سرگرم رہے۔ یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ اس میں مغرب کی حمایت یافتہ سریئین فری آرمی بھی شریک تھی یا نہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطیٰ کے لیے قائم مقام ڈائریکٹر جو اسٹورک کا کہنا تھا کہ یہ خلاف ورزیاں سرکش باغیوں کی محض کارروائیاں نہیں تھیں بلکہ یہ ’’شہری آبادی پر منظم اور منصوبہ بندی کے تحت حملہ تھا۔‘‘
انسانی حقوق کے اس گروپ نے شام میں تین سال سے جاری تنازع میں صدر کی فورسز کی طرف سے بھی متواتر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مبینہ واقعات رپورٹ کیے ہیں۔
اب تک شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے دعویٰ کیا ہے کہ اگست میں صوبہ اذقیہ پر حزب مخالف کے مسلح افراد نے مبینہ طور پر کم از کم 190 شہریوں کو ہلاک کیا اور 200 سے زائد کو یرغمال بنایا جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔
نیو یارک میں قائم اس گروپ نے اپنی ایک ریورٹ میں کہا ہے کہ اسد کے حامی 10 علویہ دیہاتوں پر ہونے والے حملوں میں کم از کم 67 افراد کو پھانسی دے کر یا غیر قانونی طور پر جان سے مارا گیا۔ رپورٹ کے مطابق بعض موقعوں پر پورے کے پورے خاندان کو ہی ہلاک کر دیا گیا۔
تفتیش سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ان حملوں میں کم از کم 20 مسلح گروپ نے حصہ لیا۔ ان میں ’جبھة النصرہ‘ اور ’اسلامی ریاست عراق و شام ‘ سمیت پانچ اسلامی گروپ زیادہ سرگرم رہے۔ یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ اس میں مغرب کی حمایت یافتہ سریئین فری آرمی بھی شریک تھی یا نہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطیٰ کے لیے قائم مقام ڈائریکٹر جو اسٹورک کا کہنا تھا کہ یہ خلاف ورزیاں سرکش باغیوں کی محض کارروائیاں نہیں تھیں بلکہ یہ ’’شہری آبادی پر منظم اور منصوبہ بندی کے تحت حملہ تھا۔‘‘
انسانی حقوق کے اس گروپ نے شام میں تین سال سے جاری تنازع میں صدر کی فورسز کی طرف سے بھی متواتر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مبینہ واقعات رپورٹ کیے ہیں۔
اب تک شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔