تین عالمی تنظیموں ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں پاکستان میں صحافیوں پر ہونے والے حالیہ حملوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کی حکومت نے صحافیوں پر حملوں کے بارے میں تردید کرتے ہوئے انہیں حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ماضی میں کئی حملوں کے بعد ریاستی اداروں پر الزام عائد کیے گئے لیکن ان کی بڑی وجہ امیگریشن تھی۔
پاکستان کے حساس ادارے آئی ایس آئی نے ایک بیان میں خود پر عائد تمام الزامات کی تردید کی ہے اور اسے ادارے کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے صحافیوں پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے تحقیقات کروانے کا کہا تھا۔
عالمی تنظیمون کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان اس بارے میں غیرجانبدارانہ تحقیقات کرے اور ایسی پالیسیاں ترتیب دے جن سے آزادئ اظہار رائے ممکن بنایا جا سکے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈائریکٹر براڈ ایڈمز نے کہا کہ صحافیوں پر حملوں کی تعداد اور غیر واضح صورتِ حال خوفناک ہے۔پاکستانی حکام ان حملوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام صحافی کسی خوف و خطرے کے بغیر اپنے فرائض سرانجام دے سکیں۔
اعلامیہ میں صحافی اسد طور،مطیع اللہ جان اور ابصار عالم پر ہونے والے حملوں کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کے سیکرٹری جنرل ظریفی نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ پاکستان میں عام لوگوں کو معلومات فراہم کرنے والوں کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔پاکستانی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو سینسر شپ،جسمانی تشدد اور حراست کا خطرہ ہے۔
اعلامیہ میں سینئر صحافی حامد میر کے پروگرام کو بند کرنے پر بھی تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان میں میڈیا ایڈیٹرز پر دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔
اس بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹڑ دینوشکاڈیسا نائیک کا کہنا ہے کہ اگر حکام انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سینسر شپ،ہراساں کیے جانے اور صحافیوں کے خلاف تشدد روکنے سے متعلق فیصلہ کن اقدام کرنا ہوں گے۔