پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم نے ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں گزشتہ سال منعقد ہونے والے عام انتخابات سے پہلے میڈیا کی آزادی کو محدود کرنے کے مبینہ اقدامات نے خوف کی فضا کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے صحافی سیلف سینسرشپ پر مجبور ہو گئے ہیں۔
یہ بات انسانی حقوق کے غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان 'ایچ آر سی پی' کی طرف سے 2018ء میں ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ہونے والے انتخابات سے پہلے قومی سلامتی کے خدشات کے پیش نظر میڈیا کی کوریج پر قدغن عائد کی گئی ہے جو ایچ آر سی پی کے مطابق اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت کی طرف سے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے اعلان پر بھی میڈیا نے تحفطات کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو میڈیا اور پریس کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2018ء میں پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی کی درجہ بندی کم ہو گئی۔ ایچ آر سی پی نے سائبر جرائم کی روک تھام سے متعلق غیر واضح قانون، انٹرنیٹ کی بندش اور سیاسی اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف مبینہ حملوں کو اس کی وجہ قرار دیا ہے۔
رپورٹ کے اجرا کے موقع پر اسلام آباد میں ہونے والی نیوز کانفرنس کے دوران انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور سینیئر صحافی غازی صلاح الدین نے کہا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال انتہائی نازک ہے اور ان کے بقول انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے معاشرے کے سب طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
صلاح الدین نے مزید کہا کہ ایک صحت مند جمہوری معاشرے کے لیے میڈیا کی آزادی ضروری ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2018ء میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کا قتل، عورتوں پر تشدد، بچوں سے مشقت، مذہبی عدم رواداری اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اقلیتوں کے خلاف عدم رواداری کے واقعات میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے اور مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
انسانی حقو ق کے سرگرم کارکن اور مسیحی برادری کے نمائندے جوزف فرانسس نے اس موقع پر کہا کہ مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات کو روکنے کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔
‘‘ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ فوری قانون سازی کی جائے اور 18 سال سے کم عمر کے مسیحی، ہندو یا دیگر برادریوں کے بچوں کیلئے مذہب تبدیل کرنے کی کم سے کم عمر کو 18 سال کیا جائے تاکہ جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات کی روک تھام کی جائےـ
گزشتہ ہفتے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے دو ہندو لڑکیوں کو اپنے شوہروں کے ساتھ رہنے کی اجازت دی تھی جن کے والدین نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی بیٹیوں کو اغوا کر کے ان کی زبردستی شادی کی گئی تھی۔ تاہم عدالت نے ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
جوزف فرانسس نے کہا کہ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات کی روک تھام کے خلاف انتظامیہ کو مؤثر اقدامات کرنے کا کہا ہے تاہم فرانسس کے بقول یہ واقعات مناسب قانون سازی ہی سے رُک سکیں گے۔
پاکستان کی حکومت کے کسی عہدیدار کی طرف سے درخواست کے باجود ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق ایچ آر سی پی کی رپورٹ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم حکومت میں شامل عہدیداروں کا یہ کہنا ہے کہ حکومت نے آزادی اظہار کے حق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور ملک کی تمام مذہبی برداریوں کو آئین کے مطابق دییے گئے مساوی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔