’ہاؤڈی مودی‘ کو کتنی پذیرائی ملی؟

امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں اتوار کو بھارتی وزیرِ اعظم نے امریکی صدر کے ہمراہ بھارتی نژاد امریکیوں کے ایک جلسے سے خطاب کیا۔ 'ہاؤڈی مودی' نامی اس پروگرام کی کوریج بھارتی میڈیا میں بڑے پیمانے پر کی گئی۔

بھارت میں تقریباً تمام ہی نیوز چینلز نے اس پروگرام کی لائیو کوریج کی۔ اس مقصد کے لیے ذرائع ابلاغ کے بیشتر اداروں نے اپنے نمائندے امریکہ روانہ کیے تھے۔

بھارت کے متعدد ٹی وی چینلوں پر 'ہاؤڈی مودی' نامی یہ پروگرام شروع ہونے سے قبل تجزیہ کار اپنے اپنے انداز میں پروگرام اور دونوں رہنماؤں کی ممکنہ تقریروں کا جائزہ لیتے رہے۔

بعض نیوز چینلوں نے صدر ٹرمپ کی تقریر کے ہندی ترجمے کا بھی انتظام کیا ہوا تھا۔

غیر ملکی میڈیا میں کوریج

’ہاؤڈی مودی‘ کو امریکی میڈیا میں بھی خصوصی کوریج دی گئی۔ امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے لکھا کہ اس پروگرام میں صدر ٹرمپ نے ثانوی کردار ادا کیا جب کہ اصل کردار نریندر مودی کا رہا۔

ایک اور امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق صدر ٹرمپ نے مودی کی ریلی میں غیر معمولی کردار ادا کیا جس میں مودی نے ٹرمپ کی صدارت کی حمایت بھی کی۔

’وال اسٹریٹ جرنل‘ کے مطابق تقریباً 50 ہزار کے عوامی اجتماع میں دونوں رہنماؤں کی شرکت دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں کے درمیان بڑھتے اسٹریٹجک تعلقات کی طرف ایک اشارہ ہے۔

دہشت گردی مخالف جنگ

بھارت کے ایک انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ سے وابستہ ایک خاتون صحافی سہاسنی حیدر نے اس پروگرام پر اپنی رائے دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ بھارتی وزیرِ اعظم اور امریکی صدر نے دہشت گردی اور سرحدی سلامتی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

ان کے خیال میں دونوں رہنماؤں میں سے کسی نے بھی تجارتی مسائل کے معاملے کو نہیں اٹھایا۔ البتہ دونوں رہنماؤں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ منگل کو ہونے والے مذاکرات میں تجارتی اختلافات حل کر لیں گے۔

بھارتی وزیرِ اعظم کے پاکستان پر وار

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں پاکستان کو بھی نشانہ بنایا۔ پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سب کو علم ہے کہ نائن الیون اور ممبئی حملوں کے ذمّہ دار کہاں سے آتے ہیں۔ دہشت گردی کو پروان چڑھانے والوں کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کی ضرورت ہے۔

مودی نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے کا ذکر کرتے ہوئے بھی پاکستان کو ہدف بنایا۔ اُنہوں نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ جن لوگوں سے اپنا ملک نہیں سنبھل رہا ہے انہیں آرٹیکل 370 کے خاتمے سے پریشانی ہے۔

دونوں ملکوں میں زبردست اتفاق رائے

بھارت کے ایک سینئر تجزیہ کار پردیپ ماتھر نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے 'اسلامی دہشت گردی' کے خلاف جنگ اور نریندر مودی نے دہشت گردی اور اس کی اعانت کرنے والوں کے خلاف لڑائی کی بات کر کے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ اس مسئلے پر دونوں رہنماؤں میں زبردست اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔

بھارتی تجزیہ کار کے بقول صدر ٹرمپ نے تین باتیں کہیں، اسلامی دہشت گردی، سرحدی تحفظ اور در اندازی، اور یہ تینوں باتیں بھارت کے دل کے قریب ہیں۔ گویا اس طرح صدر ٹرمپ نے نریندر مودی کی دہشت گردی مخالف پالیسیوں کی تائید کی ہے۔

ایک اور تجزیہ کار ابھگیان پرکاش نے کہا کہ جس طرح نریندر مودی اور صدر ٹرمپ نے ایک دوسرے کی تعریف کی ہے اس سے با آسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں رہنماؤں کی باہمی دوستی کافی مضبوط ہو چکی ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے کے بے حد نزدیک آگئے ہیں۔

دونوں ایک دوسرے کے بے حد قریب

بھارت کے ایک تجزیہ کار دیبانگ کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی نے اپنی تقریر میں اگرچہ پاکستان کا نام نہیں لیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے سب کچھ کہہ دیا ہے۔

تجزیہ کار کے بقول مودی کی تقریر سے قبل یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھی کہ بھارتی وزیرِ اعظم اس تقریر میں کشمیر کا ذکر نہیں کریں گے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ صدر ٹرمپ ان کو کہیں زیادہ اہمیت دے رہے ہیں تو انہوں نے کشمیر کا بھی ذکر کر دیا۔

امریکی انتخابات

اس پروگرام کو کئی حلقے امریکی انتخابات کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔

اپنے خطاب کے بعد بھارتی وزیرِ اعظم نے صدر ٹرمپ کو مدعو کرنے سے قبل کہا کہ ”اس بار ٹرمپ سرکار“۔ تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعظم مودی نے اس نعرے کے ذریعے بھارتی نژاد امریکیوں کو صدر ٹرمپ کو ووٹ دینے کا پیغام دیا ہے۔

تجزیہ کار اے یو آصف کے خیال میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی انتخابات کے پیشِ نظر اس جلسے میں شرکت کی اور نریندر مودی کو انہوں نے زیادہ اہمیت اس لیے دی کہ وہ ہیوسٹن میں آباد بھارتی نژاد امریکیوں کے ووٹ حاصل کر سکیں۔

کانگریس کا اعتراض

نریندر مودی کی جانب سے صدر ٹرمپ کے حق میں نعرہ لگانے پر بھارت میں حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس نے اعتراض کیا ہے۔

کانگریس کے ایک سینئر رہنما آنند شرما نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ جناب وزیرِ اعظم، آپ نے کسی دوسرے ملک کے داخلی انتخابات میں مداخلت نہ کرنے کی بھارت کی باوقار اور دیرینہ پالیسی کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ بھارت کے مفادات کے منافی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کسی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیمو کریٹس کے ساتھ ہیں۔

آنند شرما ننے نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے آپ کی انتخابی مہم بھارت اور امریکہ کی جمہوریتوں کو پامال کرتی ہے۔

مودی مخالف احتجاج

جس وقت این آر جی اسٹیڈیم میں مذکورہ پروگرام ہو رہا تھا اسی وقت اسٹیڈیم کے باہر کچھ لوگ مودی مخالف احتجاج بھی کر رہے تھے۔

مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں نے احتجاج کے دوران نریندر مودی کی حکومت کو ’نسل پرست حکومت‘ قرار دیا اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا معاملہ بھی اٹھایا۔