روس میں مسلح بغاوت: امریکہ اور دیگر ممالک کا کیا ردِ عمل رہا؟

روس میں مسلح بغاوت کرنے والی نجی ملیشیا ویگنر کے سربراہ اور بیلاروس کے درمیان مذاکرات کے بعد جنگجو گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوزن بیلاروس روانہ ہو رہے ہیں۔ تاہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اس ساری صورتِ حال میں محتاط ردِ عمل سامنے آیا ہے۔

'ویگنر' گروپ نے روسی دارالحکومت ماسکو کی جانب پیش قدمی کرنے اور اس کے بعد اچانک فیصلہ واپس لینے اور پھر اپنے اڈوں میں واپس جانے کا اعلان کیا ۔ اس پورے معاملے کے دوران امریکہ کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

صدر جو بائیڈن نے البتہ ہفتے کو فرانس، جرمنی اور برطانوی قیادت سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور ان خدشات کا اظہار کیا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک روس پر صدر ولادیمیر پوٹن کا کنٹرول ختم ہونے کے بعد حالات کس رُخ پر جا سکتے ہیں۔

صدر بائیڈن کے رابطوں کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن نے عالمی رہنماؤں سے روس کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا جو ویگنر گروپ کی ماسکو کی جانب پیش قدمی اور یہ فیصلہ تبدیل کرنے کے بعد تیزی سے بدل رہی تھی۔

امریکی محکمۂ دفاع کے ترجمان کے مطابق وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی کینیڈا، فرانس، جرمنی اور پولینڈ کے اپنے ہم منصبوں سے ٹیلی فونک رابطے کیے ہیں۔

امریکہ کی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے بھی صورتِ حال کی سنگینی کے پیشِ نظر اسرائیل اور اُردن کے دورے ملتوی کر دیے ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھی مغربی یورپ اور جاپان کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فونک رابطوں میں روس کی صورتِ حال پر 'قریبی رابطے' رکھنے پر اتفاق کیا۔

یورپی یونین کے اُمورِ خارجہ کے سربراہ جوزف بوریل نے اسے روس کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

روس کا مغربی ممالک کو انتباہ

امریکی قیادت نے روس کو کئی دہائیوں میں پیش آنے والے اس بڑے سیکیورٹی چیلنج کا خاموشی سے جائزہ لیا۔

صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس نے ہفتے کو امریکہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں جن میں وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن، جنرل مارک ملی، ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس ایورل ہینز اور سینٹرل انوسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر ولیم برنس بھی شامل تھے۔

ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ کے محتاط ردِعمل کی وجہ یہ ہے کہ وہ پوٹن کو کوئی ایسا موقع نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ اس بغاوت کا ذمے دار واشنگٹن کو ٹھہرائیں۔

خیال رہے کہ روس نے اس مسلح بغاوت کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اس معاملے سے پیچھے رہنے کی وارننگ دی تھی۔

ہفتے کو روس کی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ باغی روس کے دُشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ہم مغربی ممالک کو خبردار کرتے ہیں کہ ان حالات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے گریز کریں۔

یوکرین کا ردِعمل

یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے روس میں مسلح بغاوت پر اپنے ردِعمل میں کہا کہ اس سے روس کی کمزوریاں عیاں ہو گئی ہیں۔

ہفتے کی شب اپنے ویڈیو پیغام میں زیلنسکی کا کہنا تھا کہ جب تک روس فوج اور اس کے کرائے کے جنگجو یوکرین میں رہیں گے اس وقت تک روس کے لیے افراتفری، تکلیف اور مسائل ہوں گے۔

برطانیہ

برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک نے روس کی صورتِ حال کے پیشِ نظر لندن میں ہنگامی اجلاس طلب کیا۔

اس ہنگامی اجلاس میں فریقین پر زور دیا گیا کہ وہ شہریوں کا تحفظ کو یقینی بنائیں۔

ترکیہ

ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے ہفتے کو پوٹن سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔

ایردوان نے پوڑن سے گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ غور و فکر کے بعد ہی کوئی اقدام کیا جائے۔