پاکستان کی جی ڈی پی سات دہائیوں بعد منفی 1.6 فی صد رہنے کا خدشہ

فائل فوٹو

پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) سات دہائیوں کے بعد رواں مالی سال منفی 1.6 رہنے کا خدشہ ہے۔ جس کا سبب کرونا وائرس کے باعث پڑنے والے منفی اثرات ہیں۔

معیشت میں گراوٹ کا یہ اندازہ وزارت خزانہ کی جانب سے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے رکھا گیا ہے۔ اس سے قبل پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 52-1951 میں تاریخ کی کم ترین سطح منفی 1.8 فی صد رہی تھی۔

وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق وزیر اعظم کے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی ترقی و دیگر مالیاتی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

اعلیٰ سطح کے اجلاس میں حکام نے بتایا کہ کرونا وائرس کے سبب معیشت پر منفی اثرات کی بدترین صورت جاری رہنے پر پاکستان کی شرح نمو یعنی جی ڈی پی منفی 1.57 رہنے کا خدشہ ہے۔

عالمی مانیٹری فنڈ اور عالمی بینک نے پاکستان کی معیشت کے منفی رہنے کے اندازے لگائے تھے تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وزارت خزانہ نے عالمی اداروں کے ان اندازوں کی تائید کی ہے۔

عالمی وبا کے باعث پاکستان کی معیشت پر شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور ملک میں جاری لاک ڈاؤن چھٹے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔

وزارت خزانہ کے حکام کا ماننا ہے کہ اگر لاک ڈاؤن میں نرمی کی جاتی ہے تو یہ وبا کے پھیلاؤ میں اضافہ پیدا کرے گا جس سے پہلے سے کمزور صحت کے نظام پر ناقابل برداشت بوجھ پڑے گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

'خلیجی ممالک سے پاکستان آنے والا زرِ مبادلہ گھٹے گا'

مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت اجلاس میں دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا کہ معیشت پر اثرات سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9.6 فی صد تک بڑھ جائے گا۔

اجلاس میں حکام کی جانب سے اعتراف کیا گیا کہ لاک ڈاؤن اور معاشی سرگرمیوں کی بندش کی وجہ سے بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم نے سال 2020 کے لیے عالمی معیشت کی شرح نمو کو 2.9 سے کم کرکے 2.4 فی صد کیا ہے جب کہ خبردار بھی کیا ہے کہ وبا کا پھیلاؤ عالمی شرح ترقی کو 1.5 فی صد تک سست کر سکتا ہے۔

پاکستان میں بھی اگرچہ کرونا وائرس نے ابھی زور نہیں پکڑا تاہم بہت سی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی طرح اس کے منفی اثرات ملک میں پوری طرح سے ظاہر ہو رہے ہیں۔

اقتصادی و معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورت حال میں پاکستانی معیشت کو از سرے نو کھڑا کرنا ہوگا۔ معاشی میدان کی اس اگلی جنگ کے لیے پاکستان کی حکومت اور ہر شعبہ زندگی کو ابھی سے تیاری کرنا ہوگی۔

ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے معیشت پر اندازے سے زیادہ اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حفیط پاشا نے کہا کہ شرح نمو مسلسل گراوٹ کا شکار رہنے کا مطلب یہ ہے کہ معاشی سرگرمیاں معدوم ہوجائیں گی اور بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔

عالمی اداروں کے مطابق اگرچہ کرونا وائرس دنیا کے تقریباً ہر ملک کو متاثر کر رہا ہے لیکن غریب ممالک کے لیے مسائل زیادہ سنگین ہیں۔

معاشی محقق فاران رضوی کہتے ہیں کہ کرونا وائس سے پہلے ہی عالمی معیشت سست روی کا شکار تھی۔ اسی لیے آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا تھا کہ پاکستان کی شرح نمو 2.6 کی بجائے 1.5 فی صد رہے گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان کی معیشت مزید زوال کا شکار ہو گی

فاران رضوی نے کہا کہ کرونا وائرس کے باعث معیشت بحرانی صورت حال اختیار کر چکی ہے اور مقامی صنعت بند ہونے کے ساتھ ساتھ معیشت کے دو نمایاں کردار برآمدات و ترسیلات زر بری طرح گر چکے ہیں۔

وزارت خزانہ میں ہونے والے اجلاس میں دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی معیشت میں تین فی صد کمی آئے گی۔

بریفنگ میں حکام نے بتایا کہ عالمی معیشت میں 2021 سے قبل بہتری ممکن نظر نہیں آتی ہے۔