|
کراچی -- پاکستان میں وفاق اور چاروں صوبوں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبے پر قومی مالیاتی معاہدے (نیشنل فسکل پیکٹ) پر دستخط کر دیے ہیں۔ معاہدے کا مقصد وفاق پر مالی دباؤ کم کرنا بتایا جا رہا ہے۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے معاہدے کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ لیکن وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تحت صوبے وفاق کی مالی ذمہ داریاں بشمول قرضوں کی واپسی، قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات وغیرہ میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔
صوبے اپنی حدود میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات بھی خود ہی برداشت کریں گے سوائے ان منصوبوں کے جو بین الصوبائی ہوں۔
صوبوں کو اس معاہدے کے تحت اپنی آمدنی کے ذرائع بڑھانے ہوں گے اور بالخصوص آئی ایم ایف کی دی گئی ہدایات کے مطابق زرعی آمدنی سے متعلق ٹیکس کا نفاذ اور وصولی کی شرح کو بڑھانا ہو گا۔
زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی
وزیرِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 'نیشنل فسکل پیکٹ' کے تحت چاروں صوبوں نے زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹیکس میں یکسانیت لائی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں ابھی قانون سازی پر مشاورت جاری ہے۔ صوبوں کو 2025 کی پہلی سہ ماہی میں قانون سازی مکمل کرنی ہے اور اس کی وصولی 2025 سے ہی شروع کی جائے گی اور یہ صوبے ہی جمع کریں گے۔
یہ بھی طے کیا جانا باقی ہے کہ کم از کم کتنے خطہ زمین پر زرعی انکم ٹیکس کا نفاذ کیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ اصولی طور پر اس پر چاروں صوبوں نے اتفاق کر لیا ہے اب صوبوں کی آمدن بڑھانے کے لیے زرعی ٹیکس کا اطلاق کیا جائے گا۔
اینٹی منی لانڈرنگ کے قوانین سمیت دیگر مالی قوانین پر صوبوں میں سختی سے عمل درآمد ممکن بنایا جائے گا۔ وزیرِ خزانہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر چیز صوبوں کی مشاورت ہی سے طے کی جائے گی۔
آئی ایم ایف نے کیا تجویز کیا تھا؟
خیال رہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ 37 ماہ کے لیے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری دیتے وقت کہا تھا کہ مالیاتی استحکام کو برقرار رکھنے، محصولات میں اضافے اور محتاط اخراجات کے انتظام کے ذریعے معیشت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔
اس کے لیے پاکستان کو ٹیکس کی بنیاد (ٹیکس بیس) کو وسعت دینا ہو گی اور پہلے سے کم ٹیکس دینے والے شعبوں بشمول صنعت کاروں، رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز اور بڑے کاشت کاروں پر ٹیکس بڑھایا جائے۔
اس مقصد کے لیے صوبے اپنی ٹیکس جمع کرنے کی کوششوں کو بشمول سروسز پر سیلز ٹیکس اور زرعی انکم ٹیکس بڑھانے کے لیے اقدامات کریں گے۔
زراعت پر تمام صوبے وفاقی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس رجیم کی قانون سازی کے ذریعے اپنے زرعی انکم ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر ہم آہنگ کریں گے اور یہ یکم جنوری 2025 سے نافذ العمل ہو گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس تصفیے کا وفاق کے قابل تقسیم پولز سے صوبوں کو ہونے والی تقسیم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس طرح آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ جو کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان محصولات کی تقسیم کی منظوری کا کام سرانجام دیتا ہے، وہ برقرار رہے گا۔
'مالیاتی معاہدے کو کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا'
ماہرین نے اس معاہدے کی کامیابی پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے اُستاد ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ مالیاتی معاہدہ آئینی ذمہ داریوں کا متبادل نہیں ہو سکتا.
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کوئی بھی صوبائی حکومت وسائل بڑھانے اور وفاق کی مالی ذمے داریاں بانٹنے کی قانونی طور پر پابند نہیں ہو گی۔ اس کے لیے ان کے خیال میں ضروری ہے کہ جو بھی تبدیلی کرنی ہے وہ این ایف سی ایوارڈ ہی کے تحت کی جائے۔
ڈاکٹر اکرام الحق نے بتایا کہ ملک میں آخری بار ساتواں این ایف سی ایوارڈ 2010 میں لایا گیا تھا۔ لیکن ساتویں ایوارڈ کے بعد سیاسی اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے اسی کو اب تک چلایا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول نیا این ایف سی ایوارڈ لانا آئینی ذمہ داری ہے جو محض مالیاتی معاہدے سے پوری نہیں ہو جاتی۔ یہ معاہدہ بھی ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے اصرار اور شرائط پوری کرنے کے لیے کیا کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اکرام الحق نے ایک اور بات کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اگر وفاق صوبوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے پیسے نہیں دیتا تو اس سے وفاق پر دباؤ کسی حد تک کم تو ہو گا۔ لیکن صوبے مجبور ہوں گے کہ وہ بیرونی قرضے حاصل کریں اور اس سے صوبوں کا بیرونی قرضہ بڑھے گا جس کی گارنٹی بہرحال وفاق ہی دیتا ہے۔
'مالی معاہدہ عبوری طور پر معاشی دباؤ کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے'
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں کہ نیشنل فسکل پیکٹ پاکستان کے مالیاتی فریم ورک کو بہتر بنانے کی جانب ایک صحیح قدم ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس سے ملک میں معاشی عدم استحکام کو ختم کرنے میں مدد ملے گی اور وفاقی حکومت کے اخراجات میں بھی کسی حد تک کمی آئے گی۔
ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ اس سے وفاقی سطح پر خسارے کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسرا صوبوں کو زراعت، پراپرٹی اور سروسز پر ٹیکس لگانے سے ان کی آمدنی بڑھے گی۔
اُن کے بقول ایسے منصوبے جو وفاق اور صوبے مشترکہ طور پر چلا رہے ہیں وہ صرف صوبے چلائیں گے تو ایسے پراجیکٹس میں ڈپلیکیشن ختم ہو پائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر خاقان نجیب نے اقرار کیا کہ یہ بات درست ہے کہ نیشنل فنانس کمیشن کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے اور وہی ٹھیک راستہ ہے جس کے ذریعے صوبوں اور وفاق کے درمیان مالی امور، آمدن اور اخراجات طے کیے جاتے ہیں۔
سال 2010 میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی منظوری کے بعد اس پر مزید کام نہیں ہوا اور اب فیڈرل فسکل فریم ورک (وفاقی معاشی ڈھانچہ) بڑی مشکل میں آ گیا ہے۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ حکومت جلد نیا این ایف سی کمیشن تشکیل دے اور اس کے تحت ان معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔
ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اخراجات کی مینجمنٹ کو ٹھیک کرنے کے لیے اٹھارویں آئینی ترمیم کو این ایف سی ایوارڈ کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔
معاہدے کی سامنے آنے والی مزید تفصیلات کے مطابق انسدادِ بدعنوانی کے صوبائی ادارے قومی اینٹی منی لانڈرنگ اتھارٹی اور کاونٹر فنانسنگ آف ٹیرر حکمتِ عملی کے نفاذ کے لیے متعلقہ ایجنسیوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں گے۔
یہ صوبائی حکومتیں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ بھی رابطہ میں رہیں گی۔
چاروں صوبوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں گریڈ 17 سے 22 تک اعلیٰ سطح کے صوبائی سرکاری افسران کے ویلتھ اسٹیٹمنٹس تک بینکوں کو رسائی دینے کے لیے ضابطے جاری کیے جائیں گے۔
اسی طرح معاہدے کے تحت صوبائی حکومتوں کو زرعی اشیا پر امدادی قیمتیں (سپورٹ پرائس) مقرر کرنے کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔