|
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کی ملاقات بھارت میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ تجزیہ کار فریقین کے درمیان مشرقی لداخ میں ’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ (ایل اے سی) پر گشت سے متعلق معاہدے اور دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے اسباب کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مبصرین معاہدے اور ملاقات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے یہ ایک بڑا قدم ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں ملک کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں۔ لیکن اس سمت میں ابھی بہت آگے جانا ہو گا۔
یاد رہے کہ روس کے شہر کازان میں منعقد ہونے والے برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر نریندر مودی اور شی جن پنگ کے درمیان دو طرفہ ملاقات ہوئی اور سرحدی کشیدگی کو ختم کرنے سے متعلق امور پر تبادلۂ خیال ہوا۔
دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ سرحدی امور پر تبادلۂ خیال کے لیے جلد ہی دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندوں کی بات چیت ہو گی۔
بھارت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی نے فوجوں کی واپسی سے متعلق معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ جب کہ چین کے بیان میں لفظ ’معاہدہ‘ کا ذکر نہیں ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے صرف یہ کہا کہ دونوں رہنماؤں نے سرحدی علاقے میں متعلقہ ایشوز پر رابطوں کے نتیجے میں ہونے والی اہم پیش رفت کو سراہا ہے۔
'ایسا نہیں ہو گا کہ سارے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے'
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی کے سینٹر فار ایسٹ ایشین اسٹڈیز میں چائنیز اسٹڈیز کی ایسوسی ایٹ پرفیسر ڈاکٹر ریتو اگروال کا کہنا ہے کہ باہمی تعلقات کے حوالے سے پانچ سال کے بعد ہونے والی اس دو طرفہ ملاقات کی کافی اہمیت ہے اور یہ ایک مثبت قدم ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس اب سارے معاملات بالکل درست ہو جائیں گے کیوں کہ معاہدے کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئی ہیں۔
ان کے بقول اس اہم قدم کی وجہ دونوں ملکوں کی اقتصادی مجبوریوں اور جیو پولیٹیکل صورت حال ہے۔ دونوں ملکوں کی نظر اس پر ہے کہ امریکہ میں اگلا صدر کون بنتا ہے۔ ایشیا کی صورتِ حال کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔
ان کے خیال میں ایشیا میں بھارت ایک اہم طاقت ہے۔ چین اور بھارت کی یہ اقتصادی ضرورت ہے کہ وہ ایک دوسرے سے اچھے تعلقات بنا کر رکھیں۔ لیکن بہرحال یہ کہنا مشکل ہے کہ آگے کیا حالات ہوں گے اور معاملات کہاں تک بہتر ہو سکیں گے۔
'سیاسی روابط کا راستہ کھلا ہے'
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے بعد ان دو بڑے ایشیائی ملکوں کے درمیان سیاسی اور تجارتی روابط کا راستہ کھلے گا۔ مئی 2020 میں وادی گلوان میں دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان ہونے والے ٹکراؤ کے بعد بھارت کی جانب سے عائد کی جانے والی مختلف پابندیوں کی وجہ سے چینی کمپنیوں کو بھارت میں تجارت کرنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔
یاد رہے کہ مودی حکومت نے ٹاک ٹاک سمیت تقریباً 300 چینی ایپس پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کے علاوہ حکومت نے چینی سرمایہ کاری پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بعض شعبوں میں یہ پابندی چین پر امریکی پابندیوں سے بھی سخت تھی جس کی وجہ سے سرمایہ کاری سے متعلق متعدد چینی تجاویز معطل ہو گئی تھیں۔
امریکی تجارتی ادارے ’بلوم برگ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کا اثر صرف چینی تجارت پر ہی نہیں بلکہ بھارتی تجارت پر بھی پڑا۔
رپورٹ میں بعض ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان پابندیوں کو نرم کرنے کے لیے بھارتی تجارتی اداروں کی جانب سے مودی حکومت پر شدید دباؤ تھا۔
رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا بھارت میں الٹا اثر پڑا اور بھارت میں سیمی کنڈکٹر کی مینوفیکچرنگ سمیت غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کی مودی حکومت کی کوششوں کو شدید دھچکہ لگا۔
ٹیکنالوجی کے لیے چین کی ضرورت
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ موجودہ دنیا میں باہمی تعلقات کا محور معیشت ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت جو گرم جوشی دکھائی دے رہی ہے اس کی بڑی وجہ معیشت و تجارت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت اپنے یہاں سیمی کنڈکٹر کی تیاری پر زور دے رہا ہے۔ اس شعبے میں چین نے بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ بھارت کو اس سلسلے میں ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے جو چین سے پوری ہو سکتی ہے۔
ان کے مطابق بھارت میں کنزیومر گڈز کی تیاری کے لیے جس خام مال کی ضرورت پڑتی ہے گزشتہ 10 برسوں میں اس کی سب سے زیادہ سپلائی چین سے ہوئی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی حکومت کی ان پابندیوں کے باوجود باہمی تجارت کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ لیکن اس تجارت کا جھکاؤ چین کی جانب ہے۔
اسد مرزا کہتے ہیں کہ گزشتہ سال ہونے والی باہمی تجارت میں بھارت کی برآمدات اور چین کی برآمدات میں 85 ارب ڈالر کا فرق آیا ہے۔ یعنی چین کی برآمدات کا حجم بھارت کی برآمدات سے کہیں زیادہ ہے۔ بھارت کے لیے اس فرق کو کم کرنا ضروری ہے۔
اسد مرزا کے مطابق چین کواڈ کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ وہ اس بلاک کو ایشیائی نیٹو قرار دیتا ہے۔ چین کا خیال ہے کہ اگر بھارت اس سے کچھ دفاعی سودے کرتا ہے تو اس سے کواڈ کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چین ایک طرف کواڈ کی مخالفت کرتا ہے اور دوسری طرف اس کے اعلیٰ وفود حال ہی میں آسٹریلیا اور جاپان کا دورہ کر چکے ہیں۔ چین ان دونوں ملکوں کے ساتھ بھی اپنے دفاعی اور معاشی تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق بھارت اس وقت غیر جانب دار خارجہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ اس کے امریکہ سے بھی بہت اچھے رشتے ہیں جو آگے بڑھتے جا رہے ہیں اور روس سے بھی بہت اچھے تعلقات ہیں۔