|
ویب ڈیسک — بھارت اور کینیڈا کے درمیان تعلقات اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو بھی ملک بدر کر دیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تناؤ کا آغاز کینیڈا میں ایک سکھ رہنما کے قتل پر ہونے والے تنازع سے ہوا تھا جس کی شدت اب مزید بڑھتی جا رہی ہے۔
کینیڈا کا کہنا ہے کہ بھارت کے اعلیٰ ترین سفارت کار قتل کی سازش میں ممکنہ طور پر ملوث ہیں۔ کینیڈا نے اسی بنیاد پر ایک دن قبل پانچ دیگر بھارتی سفارت کاروں کو بھی ملک بدر کردیا تھا۔
بھارت نے ان الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور جواباً نئی دہلی میں کینیڈا کے قائم مقام ہائی کمشنر سمیت دیگر پانچ سفارت کاروں کو بے دخل کر دیا ہے۔
اس تنازع کا آغاز دراصل جون 2023 میں کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے ہوا تھا اور حالیہ کشیدگی کی وجہ بھی یہی معاملہ ہے۔
تنازع شروع کیسے ہوا؟
ہردیپ سنگھ نجر کو جون 2023 میں کینیڈا کے مغربی صوبے برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں ایک گردوارے کے پاس گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
نجر بھارتی نژاد کینیڈین شہری تھے اور پلمبنگ کا کاروبار کرتے تھے۔
اس کے ساتھ نجر بھارت میں سکھوں کے علیحدہ ملک کے لیے چلنے والی ’خالصتان تحریک‘ سے بھی منسلک تھے جس پر نئی دہلی نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔
اس قتل کے بعد ستمبر 2023 میں کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارتی حکومت کے نجر کے قتل میں ملوث ہونے سے متعلق ٹھوس شواہد ملے ہیں۔
بھارت نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ نجر خود ’دہشت گردی‘ میں ملوث رہے ہیں۔
کشیدگی مزید کیسے بڑھی؟
گزشتہ برس کینیڈا نے اس تنازع کے بعد ایک بھارتی سفارت کار کو ملک بدر کیا تھا جس کے بعد بھارت نے کینیڈین سفارت کار کو بے دخل کرنے کے ساتھ ساتھ دو ماہ تک کینڈین شہریوں کے لیے کونسلر سروسز کو بھی معطل کردیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مئی میں یہ معاملہ ایک بار پھر اٹھا جب کینیڈا کی پولیس نے بتایا کہ انہوں نے نجر کے قتل میں ملوث تین ملزمان کو گرفتار کیا ہے اور اس واقعے کی بھارتی حکومت کے ساتھ تعلق کی بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
بھارت نے ان الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ کینیڈا اپنی ’سیاسی مجبوریوں‘ کی وجہ سے بھارت کو موردِ الزام قرار دے رہا ہے۔
صورتِ حال میں نیا کیا ہے؟
اب کینیڈا کا یہ کہنا ہے کہ بھارت کے اعلیٰ ترین سفارت کار ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ’پرسن آف انٹرسٹ‘ ہیں۔ یعنی اس قتل میں ان کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ہیں۔ ساتھ ہی پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے کینیڈا کے شہریوں کے خلاف بھارتی حکومت کے ایجنٹس کے بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے ثبوت بھی ملے ہیں۔
اس صورتِ حال پر کینیڈا کی وزیرِ خارجہ میلانی جولی نے اپنے ایک بیان میں بھارتی حکام کے بارے میں کہا کہ نجر کے قتل میں ان کے ملوث ہونے سے متعلق ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
میلانی جولی نے کہا کہ بھارت کی حکومت پر زور دیا تھا کہ ان افراد کو حاصل سفارتی اسثنیٰ کو ختم کرے اور تحقیقات میں تعاون کی ہدایت کرے مگر اس کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔
پیر کو بھارت کے وزارتِ خارجہ نے کہا کہ بار بار درخواست کے بعد کینیڈا کی حکومت نے ثبوت کے طور پر انھیں ایک شیئر کی گئی ویڈیو فراہم کی ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق کینیڈا کی حکومت کے الزامات ’’سیاسی فوائد کے لیے بھارت پر انگلیاں اٹھانے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
ہردیپ سنگھ نجر کون ہیں؟
ہردیپ سنگھ نجر خالصتان تحریک کے لیے کام کرنے والے ایک مقامی رہنما تھے۔ خالصتان تحریک پر بھارت میں پابندی ہے لیکن بیرونِ ملک بسنے والے اور بالخصوص کینیڈا میں رہنے والے سکھوں میں اس تحریک کی خاطر خواہ حمایت پائی جاتی ہے۔
بھارت کی حکومت نے 2020 میں نجر کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔
نئی دہلی نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ بھارت میں ایک ہندو مذہبی رہنما کے قتل میں ملوث ہیں اور بھارت کینیڈا سے ان کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر رہا تھا۔
کینیڈا میں علیحدگی پسند سکھ گروپس سے متعلق بھارت کو تشویش رہی ہے اور اس کی وجہ سے دونوں ممالک درمیان تناؤ بھی پیدا ہوتا رہا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مضبوط دفاعی اور تجارتی تعلقات ہیں اور دونوں ہی چین کے بین الاقوامی کردار پر یکساں تحفظات رکھتے ہیں۔
تاہم بھارت کی جانب سے کینیڈا پر علیحدگی پسند سکھوں کو کھلی چھوٹ دینے کے الزامات میں شدت آتی جارہی ہے۔
سکھ کینیڈا کی آبادی کا دو فی صد ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا کی پارلیمنٹ میں کئی سکھ ارکان بھی ہیں۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔