ہانگ کانگ میں پرتشدد مظاہرے، 120 مظاہرین گرفتار

ہانگ کانگ میں پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔

جمعے کے روز چین نے اپنے اس منصوبے کا اعلان کیا کہ وہ ہانگ کانگ کی قانون ساز اسمبلی کو نظر انداز کرتے ہوئے یہاں قومی سلامتی قانون نافذ کرے گا تاکہ بغاوت، علیحدگی پسند تحریکوں یا دہشت گرد کارروائیوں کو نہ صرف روکا جائے بلکہ ایسا کرنے والوں کو سزا دی جائے۔

اتوار کے روز ہانگ کانگ میں ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس، اور پانی کی بوچھار کی۔ یہ مظاہرہ ہانگ کانگ میں قومی سیکیورٹی قوانین کے نفاذ کے چینی منصوبے کے خلاف کیا گیا۔

جمعہ کو چین نے اپنے اس منصوبے کا اعلان کیا تھا کہ وہ ہانگ کانگ کی قانون ساز اسمبلی کو نظر انداز کرتے ہوئے یہاں قومی سلامتی قانون نافذ کرے گا تاکہ بغاوت، علیحدگی پسند تحریکوں یا دہشت گرد کارروائیوں کو نہ صرف روکا جائے بلکہ ایسا کرنے والوں کو سزا دی جائے۔

چین کے اس اقدام سے چین کے سیکیورٹی ادارے ہانگ کانگ میں اپنے قدم جما سکیں گے اور کارروائیاں کر سکیں گے۔ چین کے اس فیصلے پر دنیا بھر میں تنقید کی جا رہی ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اس اقدام کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔

اتوار کی دوپہر ہزاروں کی تعداد میں افراد ہانگ کانگ کے مرکزی بازار میں شہری جمع ہو گئے اور مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ وہ بلند آواز میں ہانگ کانگ کی عظمت کے گیت گا رہے تھے۔

ابتدا میں یہ احتجاج اس متنازعہ قانون کے خلاف کیا جانا تھا، جس میں چین کے قومی ترانے کا مضحکہ اڑانے کو جرم قرار دیا گیا تھا، مگر پچھلے ہفتے جب یہ اعلان ہوا کہ چین ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کا قانون نافذ کرنے جا رہا ہے تو پھر احتجاج کا رخ اس قانون کے خلاف ہو گیا۔ اس متوقع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔

یہ بات یقینی ہے کہ اگلے ہفتے چین کی قومی عوامی کانگریس اس قانون کو منظور کر لے گی۔

اس احتجاج کی پہلے سے باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ تاہم اکثریت غم و غصے کے ساتھ مایوسی اور بے بسی کا اظہار کر رہی تھی۔

وہیل چیئر پر سوار ایک 63 سالہ بزرگ کا کہنا تھا کہ مجھے پتہ ہے کہ یہاں آنا کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، مگر میں پھر بھی آیا ہوں، کیونکہ قومی سلامتی کا قانون بہت ہی خطرناک ہے۔

اسی طرح ایک 64 سالہ خاتون کا کہنا تھا کہ میں اپنے نوجوانوں کی حمایت کے لیے آئی ہوں۔ مظاہرے میں وہی گیت گائے جا رہے تھے جو پچھلے مظاہروں میں گائے جاتے رہے ہیں۔ ایک نوجوان نے ہانگ کانگ کی آزادی کا پرچم اٹھایا ہوا تھا۔ بعض مظاہرین ہانگ کانگ کی آزادی کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔

اس سے پیشتر جو مظاہرے ہوتے رہے، ان میں عمومی طور ہانگ کانگ کی حکومت کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ مثال کے طور ملزمان کو چین کے حوالے کرنے کے قانون کے خلاف کئی ماہ تک مظاہرے ہوتے رہے۔

اتوار کو ہونے والا احتجاج پہلے پر امن تھا، لیکن پولیس نے اس پر تیس منٹ تک آنسو گیس پھینکی، پھر پانی کے گولے، جس پر ہجوم منتشر ہوا اور توڑ پھوڑ شروع ہو گئی۔ ٹریفک بلاک ہو گئی۔ ٹریفک لائٹس ٹوٹ گئیں اور دکانوں کو بھی نقصان پہنچا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے پتھراؤ سے تین پولیس اہل کار زخمی ہوئے ہیں۔ رات گئے پولیس نے بتایا کہ 120 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس قانون شکنی کرنے والوں سے سختی سے نمٹنے کا عزم رکھتی ہے۔ وہ پر تشدد کارروائیوں کی اجازت نہیں دے گی۔

ہانگ کانگ کے ایک سابق قانون ساز لیونگ ووک ہنگ کا کہنا تھا کہ جابر کے سامنے امان نہیں اور قومی سلامتی کے قانون سے بھی کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔

ہانگ کانگ میں برطانیہ کے آخری گورنر کرسٹوفر پیٹن نے کہا ہے کہ برطانیہ اور مغربی ممالک اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ چین کے رویے کو نرم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے آپ کو یقین دلانے کی موہوم کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہم نے چین کو خوش نہ رکھا تو ہم تجارتی فائدوں سے محروم ہو جائیں گے۔

پیٹن کا کہنا ہے کہ اس نئے جابرانہ قومی سلامتی کے قانون سے چین ہانگ کانگ میں اپنے پنجے پوری طرح گاڑ لےگا۔ ہم وہاں چین کی ایک نئی آمرانہ حکومت بنتی دیکھ رہے ہیں۔ پیٹن 1997 تک ہانگ کانگ کے گورنر تھے اور آج کل آکسفورڈ یونی ورسٹی کے چانسلر ہیں۔