پاکستان کی پہلی ایچ آئی وی ایڈز ’ہیلپ لائن ایپ‘

ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے ۔۔۔

’’اسلام علیکم۔۔۔یہ ایچ آئی وی ایڈز (ایسوسی ایشن آف پیپلز لیونگ ود ایچ آئی وی) کی ہیلپ لائن ہے ۔۔۔ ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟‘‘

فون کی یہ گھنٹی دن میں چالیس پینتالیس بار بجتی ہے۔ ہیلپ لائن پر موجود کونسلرز ایچ آئی وی ایڈز سے متعلق کالرز کے سوالات کے جواب دیتے ہیں یا انھیں مطلوبہ معلومات فرام کرتے ہیں۔

ایسوسی ایشن آف پیپلز لیونگ ود ایچ آئی وی (APLHIV) کے نیشنل کوآرڈی نیٹر، اصغر الیاس ستی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کے لیے یہ قومی سطح کی واحد ہیلپ لائن ہے۔ ہم ہفتے کے ساتوں دن اور چوبیس گھنٹے خدمات فراہم کرتے ہیں‘‘۔

کونسلرز کبھی کالرز کو مشورے دینے میں مصروف ہوں تو نئے کالر کو کچھ وقت انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اصغر الیاس ستی نے کہا ہے کہ ’’اب کسی کو فون لائن پر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ آئندہ ہفتے سے ایچ آئی وی ایڈز پاکستان کے نام سے موبائل ایپ لانچ کر رہے ہیں۔ اب کوئی بھی آسانی سے ہم سے رابطہ کر سکتا ہے۔‘‘

اے پی ایل ایچ آئی وی ایک ایسا ادارہ ہے جہاں کام کرنے والے تمام افراد ایچ آئی وی پازیٹو ہیں۔ یہاں انھیں ملازمت اسی بنیاد پر فراہم کی جاتی ہے۔

اصغر الیاس ستی نے کہا کہ ایچ آئی وی کے ساتھ ایک کلنک منسلک ہے اور متاثرین کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ سے وہ بے روزگار ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کے لیے صرف انھیں ہی یہاں ملازمت دی جاتی ہے۔ چونکہ وہ خود اس صورتحال سے گزرے ہوتے ہیں اس لیے وہ دوسرے لوگوں کو درست طریقے سے ہدایات دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔‘‘

انھوں نے بتایا کہ انھیں صرف پاکستان نہیں بلکہ بیرون ملک سے بھی مہینے میں آٹھ دس کالز موصول ہوتی ہیں۔ بقول ان کے، ’’ہمیں بیرون ملکوں سے کالز آتی ہیں۔ اسے مزید آسان بنانے کے لیے ہم ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں، تاکہ کوئی بھی شخص مقامی کال کی طرح کسی بھی وقت بات کر سکے۔ لینڈلائن سے آنے والی کال مفت ہوتی ہے۔ ہم تمام موبائل کمپنیوں کے ساتھ رابطہ کر رہے ہیں، تاکہ ان کی کالز بھی مفت ہو جائیں۔‘‘

اس ہیلپ لائن کا آغاز 2011ء میں اسلام آباد سے کیا گیا۔ یہاں سے پورے پاکستان کو خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ دن اور رات دو شفٹیں ہوتی ہیں۔ اب کونسلرز کی تعداد بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی ادارہ ’گلوبل فنڈ ٹو فائٹ اگینسٹ ایچ آئی وی، ٹی بی اینڈ ملیریا‘ پاکستان کی وزارت صحت کے ذریعے اس کی فنڈنگ کر رہا ہے۔ اس کی تمام معلومات اردو، سندھی، پشتو اور بلوچی میں ریکارڈ آوازوں کی صورت میں موجود ہے۔

اصغر الیاس ستی نے کہا کہ پاکستان میں ایڈز کے زیادہ کیس سامنے آ رہے ہیں۔ اس لیے زیادہ سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں اندازاً 163000 افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں، جن میں سے صرف 27000 رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے بھی صرف 18000 ٹریٹمنٹ کروا رہے ہیں، جس کا بنیادی سبب معاشرتی رویوں کی وجہ سے خاموشی ہے۔

لیکن، اس خاموشی کو توڑنے کی ضرورت ہے، جس کے بغیر کامیابی نا ممکن ہے۔