اسلامی ممالک کی تنظیم افغانستان کے اقتصادی بحران کے حل میں کردار ادا کرسکے گی؟

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس کو افغانستان کو درپیش اقتصادی مشکلات اور موسمِ سرما میں انسانی بحران کے خدشات کے تناظر میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے بعد اسلامی دنیا کے سب سے بڑے سیاسی پلیٹ فارم او آئی سی سے ایک مرتبہ پھر توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں کہ یہ پلیٹ فارم افغانستان کے معاملے پر ایک متفقہ لائحہ عمل سامنے لائے گا۔

البتہ سابق سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کے خیال میں اسلامی دنیا کے اندر اور باہر ایک تاثر موجود ہے کہ اس تنظیم سے وابستہ توقعات ماضی میں پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ البتہ ان کے خیال میں افغانستان کے معاملے میں شاید او آئی سی کے رکن ممالک ایک مشترکہ مؤقف وضع کرنے کی طرف پیش رفت کر سکیں۔

اسلامی تعاون تنظیم کا قیام 25 ستمبر 1969 کو اس وقت عمل میں آیا جب یروشلم میں مسلمانوں کے مقدس مقام مسجدِ اقصیٰ میں آتش زنی کے واقعے کے بعد اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس بلائی گئی تھی تاکہ اس معاملے پر یکساں مؤقف اختیار کیا جائے۔

بعد ازاں اس کانفرنس کو ایک باقاعدہ پلیٹ فارم میں بدل کر اسے اسلامی تعاون تنظیم کا نام دیا گیا تاکہ اسلامی دنیا کو درپیش مسائل پر اس پلیٹ فارم سے یکساں مؤقف اختیار کر کے عملی اقدامات اٹھائے جا سکیں۔

اس کے ساتھ ساتھ عالمی امن و آہنگی کو فروغ دے کر اسلامی دنیا کے مفادات کا تحفظ بھی تنظیم کے مقاصد میں شامل تھا۔

'او آئی سی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی'

سابق سفیر شاہد ایم امین کہتے ہیں کہ اسلامی تعاون تنظیم سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو سکی ہیں۔

ان کے بقول یہ تنظیم 57 ممالک پر مشتمل ہے اور اقوامِ متحدہ کے بعد دنیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے۔ اس میں تیل پیدا کرنے والے امیر ممالک کے ساتھ ساتھ جوہری ملک پاکستان بھی شامل ہے جب کہ ترکی، انڈونیشیا اور دیگر اسلامی ممالک بھی اس کا حصہ ہیں۔

SEE ALSO: او آئی سی اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ، افغانستان کی مدد کے لیے خصوصی فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ

شاہد امین کے مطابق اس کے باوجود او آئی سی عالمی پلیٹ فارم پر اپنا مؤثر کردار ادا نہیں کر سکی ہے جس کی وجہ ان کے خیال میں شاید سیاسی عزم کی کمی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شاہد ایم امین کا کہنا تھا کہ اسلامی دنیا کے رکن ممالک میں سیاسی، مذہبی اور مسلکی اختلافات ہیں۔ اس کی ایک مثال ایران اور سعودی عرب کے حامی عرب ممالک ہیں تو دوسری جانب بہت سے مسلم ممالک کے مفادات اور دلچسپی علاقائی پلیٹ فارم میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشرقِ بعید کے اسلامی ملک انڈونیشیا کی زیادہ دلچسپی آسیان میں ہے جب کہ مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کی زیادہ دلچسپی عرب لیگ اور خلیج تعاون تنظیم (جی سی سی) میں ہے۔

'او آئی سی قراردادیں یورپی یونین کی طرح مؤثر نہیں'

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ شائستہ تبسم کہتی ہیں کہ ابتدا میں او آئی سی کے پلیٹ فارم سے فلسطین کے معاملے پر آواز بلند کی جاتی رہی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کی اسرائیل پالیسی میں تبدیلی آنے سے یہ پلیٹ فارم فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ابھی تک کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں کرسکا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شائستہ تبسم کا کہنا تھا کہ ایک بہت گہرا تاثر موجود ہے کہ یہ تنظیم اسلامی دنیا کے عوام کی خواہشات کے مطابق کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کر سکی ہے۔ چاہے پھر وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ ہے۔ چاہے شام کا مسئلہ ہو یا یمن کا تنازع ہو۔

ڈاکٹر شائستہ کے بقول او آئی سی اسلامی دنیا کو درپیش معاملات پر قراردادیں منظور کرتی رہی ہے لیکن اس تنظیم کی قراردادوں کی وہ حیثیت اور طاقت نہیں ہوتی جس طرح یورپی یونین کی قراردادوں کی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا مسلم ممالک دنیا کے دیگر ممالک اور طاقتوں کے اثرو رسوخ میں نظر آتے ہیں۔ بعض ممالک پر مغرب کا اثر ہے جب کہ کچھ ممالک کا چین اور روس کی طرف جھکاؤ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مبینہ سلوک کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید اور تحفظات کے باوجود او آئی سی کے پلیٹ فارم سے کوئی مؤثر آواز سامنے نہیں آئی ہے جس کی وجہ ان کے بقول یہ ہے کہ مسلم ممالک چین کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔

'او آئی سی کی قراردادوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں'

دوسری جانب ڈیلاویئر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مقتدر خان کہتے ہیں کہ او آئی سی اقوام متحدہ کی طرح کی کوئی تنطیم نہیں ہے۔ بلکہ پہلے اس کا نام اسلامی کانفرنس تھا جسے بعد ازاں اسلامی تعاون تنظیم کردیا گیا۔

ان کے بقول عالمی قانون میں او آئی سی کی قراردادوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے برعکس اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جو قراردادیں ہیں وہ سلامتی کونسل کی توثیق کے بعد بین الاقوامی قانون کا ایک ماخذ بن جاتی ہے۔ البتہ او آئی سی کی قراردادوں کی پابندی کرنا اس کے رکن ممالک کے لیے ضروری نہیں ہے۔

ڈاکٹر مقتدر خان کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے او آئی سی کی تنظیم کی تشکیل کے وقت اسے ایک بااختیار ادارہ نہیں بنایا گیا تھا، جیسا کہ یورپی یونین اور اس طرح کے دیگر ادارے ہیں۔

مقتدر خان کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں اس لیے اس تنظیم کو ارادی طور پر کمزور رکھا گیا ہے اور بعض غیر اسلامی طاقت ور ممالک بھی اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ اسلامی دنیا کا کوئی مؤثر سیاسی پلیٹ فارم بنے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر او آئی سی مؤثر تنظیم ہوتی تو یقیناً یہ فلسطین کے مسئلے کے بارے میں کوئی اقدامات کرسکتی تھی۔ عراق جنگ کے بارے میں سوال اٹھا سکتی تھی۔ یہی نہیں بلکہ اسلامی دنیا کے تحفظ کے لیے بہت کچھ کرسکتی تھی۔

البتہ ان کے بقول تنظیم نے بعض معاملات میں آواز بلند کی جس میں اسلاموفوبیا کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی ایک بڑی تنظیم ضرور ہے لیکن یہ ایک کمزور تنظیم ہے۔

ڈاکٹر مقتدر نے دعویٰ کیا کہ بد قسمتی سے او آئی سی ایک ایسا پلیٹ فارم بن گیا ہے جہاں صرف بیان دیے جائیں اور اس پلیٹ فارم کو رکن ممالک کے مفادات کے لیے استعمال کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت کی وجہ سے اب عرب ممالک اسرائیل کے قریب جا رہے ہیں اور فلسطین کا مسئلہ پس منظر میں چلا گیا ہے۔ ان کے بقول اسلامی دنیا کے یہ دو بڑے ممالک اگر اپنے اختلافات دور کرلیں تو اسلامی ممالک قریب آسکتے ہیں۔

'پاکستان کو ایک اچھا موقع ملا ہے'

پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس اجلاس سے افغانستان کو درپیش شدید اقتصادی اور معاشی مشکلات کی طرف دنیا کی توجہ راغب کروانے میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔

ان کے بقول اس کے ساتھ دنیا طالبان قیادت کو بھی باور کرا سکتی ہے کہ اگر وہ بین الاقومی برادری کا حصہ بن کر اپنے مسائل حل کرنے کے خواہاں ہیں تو انہیں ایک جامع حکومت، افغان شہریوں کے بنیادی حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق بین الاقوامی برادری کے مطالبات پر توجہ دینا ہو گی۔

البتہ ڈاکٹر مقتدر خان کہتے ہیں کہ واشنگٹن کے بعض حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ پاکستان افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس لیے شاید اس کانفرنس میں مغربی ممالک کی طرف سے شاید اتنا پرجوش جواب نہ دیا جائے لیکن شاید یہ اجلاس افغانستان کے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی پیش رفت ثابت ہو سکے۔

خیال رہے کہ او آئی سی اجلاس میں اس کے رکن ممالک کے علاوہ یورپی یونین اور مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک کے نمائندے بھی شریک ہیں۔

ڈاکٹر مقتدر خان کے بقول پاکستان کی طرف سے او آئی سی اجلاس کی میزبانی کرنے سے پاکستان کے لیے سفارتی سطح پر مثبت تاثر کا موجب بنے گا اور او آئی سی کے کردار کے بارے میں بھی بہتر تاثر ابھر کر سامنے آئے گا۔

شائستہ تبسم کہتی ہیں کہ او آئی سی اجلاس کی میزبانی سے پاکستان کو عالمی سطح پر سرگرم ہونے کا ایک اچھا موقع ملا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چاہیے ماضی میں او آئی سی کتنی ہی غیر مؤثر رہی ہے، لیکن پاکستان کی طرف سے اس تنظیم کے وزرائے خارجہ اور دیگر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ایک سفارتی کامیابی ہے۔