گھوٹکی میں قائم سنتھ سترام دھام مندر کے منتظم جے کمار کا کہنا ہے کہ پاکستان ہمارا ملک ہے، یہاں پیدا ہوئے ہیں، یہاں کماتے اور کھاتے ہیں، یہی مریں گے۔
سندھ کے ضلع گھوٹکی میں 15 ستمبر کو دوپہر کے وقت سنتھ سترام دھام مندر پر مشتعل ہجوم نے اس وقت حملہ کیا جب وہاں دو افراد موجود تھے۔
حملہ کرنے والے شرپسندوں نے مندر میں داخل ہو کر اس کی بے حرمتی کی جب کہ وہاں موجود مورتیوں اور دیواروں پر آویزاں تصاویر پر ضرب لگا کر فرار ہو گئے۔
حملے کے دوران مندر میں موجود دو افراد نے مبینہ طور پر اپنی جان بالائی منزل پر چھپ کر بچائی۔
اس واقعے کے حوالے سے جے کمار کا کہنا ہے کہ ہر قوم میں شرپسند ہوتے ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اس عمل سے ہم یہاں سے ہجرت کر جائیں گے تو ایسا نہیں ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مندر کے منتظم جے کمار نے بتایا کہ اپنی 50 سالہ زندگی میں انہوں نے یہ پہلا واقعہ دیکھا ہے۔ اس سے قبل کبھی بھی ایسا نہیں ہوا۔
جے کمار کا کہنا تھا کہ مسلمان اور ہندو نہ صرف یہاں ایک دوسرے کے ساتھ مل جُل کر رہتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں بھی شریک ہوتے ہیں۔
ان کے بقول، اس واقعے نے جے کمار سمیت ہندو برادری کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حملہ کیوں کیا گیا؟
اس واقعے سے ایک روز قبل گھوٹکی کے نجی اسکول کے ہندو پرنسپل نوتن پر ایک طالب علم نے توہینِ مذہب کا الزام لگایا تھا۔
پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر مقدمے کے اندراج اور ملزم کی گرفتاری میں تاخیر کے سبب مظاہرین مشتعل ہوئے۔
مشتعل ہجوم نے پہلے اسکول میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور پھر سنتھ سترام دھام مندر کا رخ کیا۔
اس واقعے کے بعد مقامی مسلمانوں کی بڑی تعداد نے ہندوؤں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرتے ہوئے مندروں میں رات گزاری تاکہ مزید کوئی اور ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آئے۔
نوتن اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں جب کہ مندر کے اطراف اور شہر بھر میں پولیس اور رینجرز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
اب بھی سندھ بھر سے بڑی تعداد میں ہندو اور مسلمان گھوٹکی کے سنتھ سترام دھام مندر میں اظہار یکجہتی کے لیے آ رہے ہیں۔
گھوٹکی واقعے کا علاقے پر اثر
جے کمار کا کہنا ہے کہ ایک شخص کی غلطی کی سزا پوری ہندو برادری کو دینا درست نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر نوتن نے غلطی کی ہے تو قانون اور عدالتیں ہیں، حکومت موجود ہے وہ اس کی تحقیقات کریں اور جرم ثابت ہونے پر سزا دیں۔
انہوں نے بتایا کہ جس روز یہ واقعہ ہوا وہ دن یہاں بسنے والے ہندوؤں کے لیے بہت کٹھن تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح سول سوسائٹی، حکومتی نمائندے، سیاسی جماعتیں اور سماجی رہنما ان کے ساتھ کھڑے ہوئے، اس سے ان کا خوف ختم ہو گیا۔
جے کمار پُر امید ہیں کہ جو لوگ اس حملے میں ملوث تھے انہیں سزا ضرور ملے گی۔
واضح رہے کہ گھوٹکی میں حالات اب معمول پر ہیں۔ بازاروں اور گلی محلوں میں رونقیں بحال ہو چکی ہیں۔ لیکن اس واقعے کے بعد یہاں کے مکین ایک سوچ رکھتے ہیں کہ جو ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے انہیں صدمہ ہوا ہے۔ وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔
کیا سندھ میں ہندو اقلیت دباؤ کا شکار ہے؟
پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ سندھ گزشتہ کچھ عرصے سے اقلیتوں کے حوالے سے خبروں کا حصہ ہے۔
گھوٹکی مندر واقعے کے علاوہ لاڑکانہ میں آصفہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی طالبہ نمرتا کماری کی پر اسرار موت کا واقعہ بھی حالیہ دنوں میں سامنے آیا ہے۔
نمرتا کی موت پر یونیورسٹی انتظامیہ کی بدنظمی اور وائس چانسلر کے رویے نے بھی بہت سے سوالات کو جنم دیا۔
سماجی رہنما ایڈووکیٹ جام عبدالفتح سمیجو کا کہنا ہے کہ ہندو چونکہ تعداد میں کم ہیں تو کچھ با اثر لوگ انہیں دباؤ میں لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
جام عبدالفتح کا کہنا ہے کہ اس کی ایک مثال یونیورسٹی کی وائس چانسلر انیلہ عطاء الرحمٰن کی ہے جو ہندو برادری سے نمرتا کی آخری رسومات کے بعد تعزیت کے لیے آئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وائس چانسلر انیلہ عطاء الرحمٰن وہاں موجود ہندو برادری کے افراد کی جانب سے پوچھے جانے والے سخت سوالات کا جواب نہیں دے سکی تھیں۔
سماجی رہنما کے مطابق تعزیتی تقریب میں موجود ایک ہندو صحافی رمیش کمار کو سوال پوچھنے اور موبائل سے ویڈیو ریکارڈ کرنے پر وائس چانسلر نے تھپڑ بھی مارا تھا۔
سماجی رہنما نے ہندو صحافی کو تھپڑ مارنے کے عمل کو بھی ہندو برادری کے دباؤ میں ہونے کی وجہ قرار دیا۔
اقلیت اور آزادی رائے میں احتیاط پسندی
رمیش کمار گزشتہ 17 برس سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رمیش کمار نے بتایا کہ انہوں نے وائس چانسلر کے خلاف ہراسانی کی پٹیشن دائر کر دی ہے۔
ان کے مطابق پٹیشن پر آصفہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وائس چانسلر انیلہ عطا الرحمٰن کو نوٹس جاری ہو چکا ہے۔
تھپڑ مارنے کے واقعے کے حوالے سے رمیش کمار کا کہنا تھا کہ وہ اُس وقت معمول کی صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے موبائل سے ویڈیو ریکارڈنگ کر رہے تھے جب کہ ہال میں دیگر مقامی صحافی بھی موجود تھے۔
انہوں نے بتایا کہ جب وائس چانسلر سخت سوالات کا جواب دینے میں ناکام رہیں تو ایسے میں میرے سوال پر انہوں نے جارحانہ رویّہ اختیار کیا۔
رمیش کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ دباؤ میں لانے کے لیے ہی اختیار کیا گیا تھا۔
اقلیتوں کے حوالے سے صحافی رمیش کمار کا کہنا تھا کہ جو چھوٹے موٹے جھگڑے ہوتے ہیں وہ کوئی ذاتی لڑائی تو ہو سکتی ہے، لیکن اب جو واقعات بڑھ رہے ہیں، ان کے پیچھے ضرور سازشی عناصر ہیں، جن کا کچھ نہ کچھ مفاد ہے۔
رمیش کا مزید کہنا تھا کہ شرپسندانہ سوچ کے حامل افراد کی تعداد گنتی میں ہوگی جو یہ چاہتے ہیں کہ ہندو کاروباری لوگ یہاں سے چلے جائیں۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ماضی میں بہت سے لوگ یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد بھی انتہائی کم ہے۔
رمیش کمار نے بتایا کہ میں یہیں رہوں گا کیوں کہ یہ دھرتی ہماری ماں ہے۔ ہم یہیں رہیں گے اور یہیں مریں گے۔
بحیثیت ہندو ایسے واقعات پر کتنا دباؤ محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال پر رمیش کمار نے کہا کہ مذہب ایک حساس موضوع ہے۔ جب میں رپورٹنگ کرتا ہوں تو اس بات کا خاص خیال رکھتا ہوں کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں سوشل میڈیا پر کچھ بھی پوسٹ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیتا ہوں تاکہ کوئی اس بنیاد پر کہ یہ ہندو ہے، ہدف نہ بنا لے اس لیے میں محتاط رہتا ہوں۔
رمیش کمار کے مطابق، مجھے کبھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
رمیش کا کہنا ہے کہ سندھ صوفیوں کی سر زمین ہے۔ یہاں امن کا درس ملتا ہے۔ اسلام ہی نہیں، ہر مذہب میں انسانیت سب سے پہلے ہے اور اس پیغام کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
اقلیتوں کی نقل مکانی
گھوٹکی واقعے کے بعد رکن سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی نے متاثرہ مندر کا دورہ کیا۔ اس موقع پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نصرت سحر عباسی نے کہا کہ اقلیتی طبقہ پہلے ہی احساس محرومی کا شکار ہے اگر ان کے مسائل سنجیدگی سے نہ سنے گئے تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
نصرت سحر عباسی کا کہنا تھا کہ بہت سے خاندان ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں یہ وہ لوگ تھے جن کے ساتھ ہمارا بچپن گزرا۔ ہمارے آباؤ اجداد کا وقت گزرا۔ جب یہ جاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سے کچھ چھن رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو ہمارے جھنڈے میں جو سفید حصہ ان سے منسوب ہے وہ مزید چھوٹا ہوتا چلا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہندو اقلیت کے سب سے زیادہ نمائندے سندھ اسمبلی میں ہیں۔
نصرت سحر عباسی کے بقول، اس کے باوجود ان کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ جب تک ہندو برادری کے نمائندے حکومتی بینچوں پر نہیں آتے، ان کے مسائل کے حل پر سنجیدگی سے کام نہیں ہوتا۔
تبدیلیٔ مذہب کا رجحان
سندھ میں خصوصاً ضلع گھوٹکی سے آئے روز کم عمر ہندو لڑکیوں کی تبدیلیٔ مذہب کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، جس کی حالیہ مسائل کرینہ اور روینہ ہیں۔
عمومی طور پر ڈہرکی کی 'بھرچونڈی شریف' کی خانقاہ کے سجادہ نشین پیر عبد الخالق قادری یا میاں مٹھو کے ہاتھوں لڑکیوں کے مسلمان ہونے کی خبریں سامنے آتی ہیں۔
وائس آف امریکہ نے اس سوال کے جواب کے لیے 'بھرچونڈی شریف' کی خانقاہ کا رخ کیا۔
بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین پیر عبدالخالق کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ صرف ہندو لڑکیاں گھر چھوڑ کر جاتی ہیں، یہ تاثر درست نہیں ہے۔
پیر عبد الخالق نے مزید کہ کہا کہ مسلمان گھرانوں میں بھی یہ ہوتا ہے لیکن کچھ مخصوص غیر سرکاری تنظیمیں ان ہندو لڑکیوں کو ہی خبر کا حصہ بناتی ہیں کہ انہیں اغوا کیا گیا اور زبردستی مسلمان کیا گیا ہے۔
بھرچونڈی شریف کی خانقاہ کے سجادہ نشین کے مطابق مسلمان ہونے میں ہندو لڑکیوں کی مرضی شامل ہوتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں بہت سے ہندو لڑکے بھی مسلمان ہوئے ہیں لیکن ان کا تذکرہ کوئی نہیں کرتا۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ سارا پروپیگینڈا میڈیا اور این جی اوز کا ہے ورنہ تکلیف تو اتنی ہندوؤں کو بھی نہیں۔
ہندو لڑکیوں کے مسلمان ہونے کی وجوہات
پیر عبدالخالق قادری نے ہندو لڑکیوں کے مسلمان ہونے کی بڑی وجہ جہیز دینے کی روایت بتائی جس کی وجہ سے وہ بن بیاہے بیٹھی رہ جاتی ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس ایسی بھی ہندو لڑکیاں مسلمان ہونے کے لیے آئیں جنہیں ڈاکٹر بنے 10 برس گزر چکے تھے لیکن جہیز نہ ہونے کی وجہ سے وہ مجبور ہو کر آتی ہیں کہ انہیں مسلمان ہو کر کسی مسلمان مرد سے شادی کرنی ہے۔
مذہب کی تبدیلی کے بعد ان لڑکیوں کی حفاظت یا سر پرستی کیسے کی جاتی ہے؟ کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم اسے کلمہ پڑھانے سے پہلے پوچھتے ہیں کہ وہ کسی دباؤ میں تو نہیں۔ ہم جب لڑکی کو مسلمان کرتے ہیں تو ایک خط جاری کرتے ہیں اور ان کو متعلقہ سول جج یا سیشن کورٹ یا اگر حالات کشیدہ ہوں تو ہائی کورٹ سے رجوع کر کے ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ پھر عدالت ہی ان کا تحفظ کرتی ہے۔
پیر عبدالخالق کے مطابق حالات ٹھیک ہونے پر وہ انہیں ان کے شوہر کے حوالے کر دیتے ہیں۔
گھوٹکی کے حالات کی وجہ مفادات کا ٹکراو تو نہیں؟
سندھ کے اس علاقے میں اچانک سے بڑھتے واقعات کی وجہ کہیں گدی نشینی، طاقت اور مفادات کا ٹکراؤ تو نہیں؟ کے سوال پر پیر عبد الخالق کا کہنا تھا کہ خاندانوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ جہاں خاندان بڑے ہوں وہاں اندرونی تنازعات ہوتے ہیں۔
سجادہ نشین کا کہنا تھا کہ ہم نے ماضی میں انتخابات میں حصہ لیا اور ابھی 2018 کے ضمنی انتخابات میں میرا بیٹا الیکشن میں امیدوار تھا تو ہمارے حریف جن میں سردار بھی ہیں، کوئی پیر بھی ہوں گے، انہوں نے ہمارے لیے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کی۔
اپنے سیاسی مخالفین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم آگے آئیں گے تو ان کے لیے مسئلہ ہو گا۔ انہیں لوگوں میں بڑھتی مقبولیت سے مسئلہ ہے۔
پیر عبد الخالق کا دعویٰ تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے مخالفین کی جانب سے ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔