پاکستان میں ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ٹرین میں آتش زدگی کے واقعے کے بعد وفاقی وزیرِ ریلوے کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے شیخ رشید سے سوال کیا کہ 70 لوگ جل گئے، بتائیں کیا کارروائی ہوئی؟
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کو ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کی۔ عدالت کے حکم پر وفاقی وزیرِ ریلوے شیخ رشید بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے سماعت کے آغاز میں ریلوے کے بڑھتے خسارے پر شیخ رشید کی سرزنش کی اور ان سے استفسار کیا کہ ٹرین میں آگ لگنے سے 70 افراد زندہ جل گئے، بتائیں کیا کارروائی کی گئی؟
شیخ رشید نے جواب دیا کہ 29 ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ گیٹ کیپر اور ڈرائیورز کو نکالا ہے، بڑوں کو کیوں نہیں؟
شیخ رشید نے جواب دیا کہ بڑوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ "سب سے بڑے تو آپ خود ہیں۔ آپ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ بتا دیں کہ 70 آدمیوں کے مرنے کا حساب آپ سے کیوں نہ لیا جائے۔"
یاد رہے کہ صوبۂ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں گزشتہ برس اکتوبر میں ایک مسافر ٹرین میں آگ لگنے سے کم از کم 70 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ آگ کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس کی تین بوگیوں میں لگی تھی۔
SEE ALSO: رحیم یار خان: تیزگام میں گیس سیلنڈر پھٹنے سے آتش زدگی، 73 افراد ہلاکچیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ "جیسے ریلوے چلائی جا رہی ہے، ہمیں ایسی ریلوے کی ضرورت نہیں۔ ریلوے کو آپ بند ہی کر دیں۔ آپ کا سارا کچا چٹھا ہمارے سامنے ہے۔"
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرین میں بم پھٹ جائے، افسروں اور بابوؤں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ریلوے کے بابو صرف کرسیاں گرم کرتے ہیں۔ ان انتظامیہ سے ٹرین نہیں چلنے والی۔
دوران سماعت شیخ رشید نے ریلوے کے مسائل کا واحد حل 'ایم ایل ون' منصوبہ قرار دیا اور عدالت کو آگاہ کیا کہ یہ 14 سال پرانا منصوبہ ہے۔ لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ منصوبہ بندی کمیشن نے ابھی تک ٹینڈر ہی جاری نہیں کیا۔ ایم ایل ون منصوبے کے تحت 1880 کلو میٹر طویل نیا ٹریک چین کے تعاون سے بنے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ "ہمارے سامنے پرانے رونے نہ روئیں۔ ایم ایل ون منصوبہ کیا جادوگری ہے۔ ریلوے میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ ریلوے کے پاس نہ سگنل ہیں، نہ ٹریک اور نہ ہی بوگیاں۔ ہر افسر پیسے لے کر بھرتیاں کر رہا ہے۔ ریلوے افسران جس کو چاہتے ہیں، زمین دیتے ہیں۔"
چیف جسٹس گلزار احمد نے وزیر ریلوے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا ادارہ سب سے نا اہل ہے۔ شیخ صاحب سینئر وزیر کے طور پر آپ کی کارکردگی سب سے اچھی ہونی چاہیے تھی۔ ریلوے کو بابو نہیں چلا سکتے۔
وزیر منصوبہ بندی عدالت طلب
'ایم ایل ون' کی ٹینڈرنگ نہ کرنے پر عدالت نے منصوبہ بندی کے وزیر اور سیکریٹری کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیرِ ریلوے آئندہ سماعت پر ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے بزنس پلان بھی پیش کریں اور پلان سے انحراف پر توہینِ عدالت کی کارروائی ہو گی۔
سپریم کورٹ نے سرکلر ریلوے کراچی کو بحال کرنے کے لیے سندھ حکومت کو بھی تعاون کی ہدایت کی ہے۔ کیس کی آئندہ سماعت 12 فروری کو ہو گی۔
واضح رہے کہ اپریل 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاکستان ریلوے میں 60 ارب روپے خسارے پر از خود نوٹس لیا تھا۔ جس وقت یہ نوٹس لیا گیا تھا، اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور خواجہ سعد رفیق وزیرِ ریلوے تھے۔
عدالتِ عظمیٰ کے از خود نوٹس کے سات روز بعد خواجہ سعد رفیق نے پاکستان ریلوے میں خسارے کے حوالے سے رپورٹ بھی پیش کی تھی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے آڈٹ کا حکم دیا تھا۔
ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے بعد وفاقی وزیرِ ریلوے شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر من و عن عمل درآمد کا اعادہ کیا ہے۔ چیف جسٹس کی ہدایت کے مطابق ریلوے آگے بڑھے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ریلوے کے کیسز میں التوا ختم ہوں گے اور اگر چیف جسٹس کہیں گے تو استعفیٰ دے دوں گا۔