ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ایسے افراد کی تعداد پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے جو کسی نہ کسی الرجی سے متاثر ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں بھی الرجی کا باعث بن رہی ہیں ۔ ماہرین کا کہناہے کہ زمین کے درجہ حرارت میں اضافے اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے سے Ragweed جیسی کئی جڑی بوٹیوں کے اگنے اور پھلنے پھولنے کا ماحول سازگار ہورہاہے،جو الرجیز پیدا کرتی ہیں ۔ان پودوں میں پولن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو اکثراوقات الرجی کا سبب بنتی ہے۔
واشنگٹن کے قریب واقع امریکی محکمہ زراعت کے ریسرچ سینٹر سے منسلک ماہر نباتات لیوس زیسکاکے مطابق آجکل کی کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آلودہ آب وہوا غیر ضروری جڑی بوٹیوں کی افزائش کے لیے معاون ثابت ہو رہی ہے ۔ زیسکا زرعی تحقیق کی بنیاد پر یہ بھی کہتے ہیں کہ موجودہ ماحولیاتی رجحان جاری رہنے کی صورت میں الرجی کے متاثرین کو آئندہ عشروں کے دوران زیادہ طویل اور شدید نوعیت کے پولن کا سامنا ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ 1900ء میں ریگ ویڈ نامی بوٹی اس وقت کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں پولن کی اوسطاً پانچ گرام مقدار پیدا کرتی تھی ، جب کہ 1990ء کی دہائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح کی بنیاد پر دیکھیں تو وہی بوٹی اوسطاً دس گرام پولن پیدا کررہی تھی ۔ اگر آج سے پچاس سال بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ کی متوقع مقدار پر اس کا جائزہ لیاجائے تو ریگ ویڈ 20 گرام پولن پیدا کررہی ہوگی ۔
زسکا نے الرجی پیدا کرنے والی بوٹیوں اور پولن پر تحقیق دس سال پہلے شروع کی ۔ ان کی رائے میں کوئی بوٹی جتنا زیادہ پولن پیدا کرتی ہے، اتنا ہی لوگوں صحت کواور زراعت کو اس سے نقصان پہنچتا ہے ۔ زراعت کو اس لیے کیونکہ یہ بوٹیاں کمرشل اجناس کے لیے دستیاب پانی ، مٹی کی زرخیزی کے لیے ضروری اجزا اور روشنی کا ایک بڑا حصہ ہضم کرجاتی ہیں ۔ زیسکا کے مطابق سب سے عام اور سب سے زیادہ الرجی پیدا کرنے والی بوٹیوں میں سے ایک پودا ریگ ویڈ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ موسم بہار میں پیدا ہونے والی یہ ایک عام بوٹی ہےجس کا قد چار سے چھ فٹ تک ہوسکتا ہے۔
http://www.youtube.com/embed/5osRBmV9qu8
ڈاکٹر ڈیریل زیلڈین شمالی امریکی ریاست کیرو لائنا کے انسٹی ٹیوٹ فار انوائرنمنٹل ہیلتھ سائنسز سے منسلک ہیں ۔ ان کے مطابق عام الرجیز میں گزشتہ دس پندرہ برسوں سے اضافہ ہورہا ہے ۔اور یہ کہ اگر مستقبل میں پولن کی مقدار بڑھی ، تو انہیں یقین ہے کہ الرجی کے متاثرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا ۔
ڈاکٹر زیلڈین کی رائے میں دمہ اور الرجیز کا آپس میں قریبی تعلق ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اندازہ ہے کہ الرجیز کے علاج معالجے پر لوگوں کو آٹھ سے دس ارب ڈالرز سالانہ خرچ کرنا پڑتے ہیں ۔ دمہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے علاج پر اربوں ڈالرز سالانہ خرچ ہوتے ہیں ۔
زیلڈن کا یہ بھی کہنا ہے کہ الرجیز کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں اور الرجیز کے مریض اکثر ایک سے زیادہ بوٹیوں کے لیے حساس ہوتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی تازہ ترین تحقیق میں ماحول اور وراثت کے اس طبی مسئلے میں کردار کو بھی ثابت کیا ہے۔
اب تک کی تحقیق کے مطابق بوٹیوں کی ہزاروں معلوم اقسام میں سے صرف آٹھ یا دس کے الرجیز کا باعث بنتی ہیں ۔ تاہم بوٹیوں کی کئی اقسام اب اپنے خلاف استعمال کی جانے والی ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہوچکی ہے ۔ جس کا مطلب ہے صحت اور زراعت کی سائنسی تحقیق پر مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔