بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی خاتون آمنہ نے، جن کا بھائی اور نو عمر بیٹا بھی مچھ میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے 11 افراد میں شامل ہے، وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ کہ ہزارہ برادری کے لوگ پاکستان کے پرامن شہری ہیں جنہیں کسی جرم اور خطا کے بغیر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہزارہ برادری کے افراد کو ان کے اپنے ہی ملک میں اجنبی بنا دیا گیا ہے۔ آمنہ نے بتایا کہ اب ان کے خاندان کے مردوں میں صرف ان کے ایک بوڑھے والد اور ایک بوڑھے سسر ہی باقی رہ گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا نو عمر بیٹا سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا اور چونکہ کرونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں اور غربت نے بھی ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ ان کے بھائی کے ساتھ محنت مزدوری کے لئے جاتا تھا۔
آمنہ نے کہا کہ گزشتہ 22 برسوں سے ہمیں مارا جا رہا ہے اور ہمیں آج تک اپنا جرم بھی پتا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاش کوئی ہمیں ہمارا جرم بتا سکے
آمنہ خاتون نے کہا کہ ہماری برادری کے افراد کو وحشیانہ انداز میں مارا گیا۔ ہاتھ پیر باندھے گئے اور پھر آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر چھریوں سے اس طرح گلا کاٹا گیا جیسے جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بقول ان کے ہزارہ لوگوں کے قاتل نہ پہلے پکڑے گئے اور نہ اب پکڑے جائیں گے
انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کہ وہ وہاں آئیں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔
مزید تفصیلات اس آڈیو انٹرویو میں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ادھر عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر ہزارہ برادری آج ہلاک ہونے والوں کی تدفین کردے تو وہ آج کوئٹہ پہنچنے کی ضمانت دیتے ہیں۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔