نیویارک میں وکلا کا خیال ہے کہ جنسی جرائم میں ہالی وڈ کے بااثر پروڈیوسر ہاروی وائن اسٹائن کو دی جانے والی سزا ایسے دیگر مقدمات میں بھی ایک اہم مثال ثابت ہوگی۔ اس کے بعد نظام انصاف، جنسی جرائم سے متعلق ایسے کیسز کو، جن میں ثبوت کی فراہمی مشکل ہو، ایک نئے انداز سے دیکھے گا۔
وائن اسٹائن کے خلاف جن خواتین نے جبری جنسی زیادتی کی گواہی دی، ان میں سے اکثر کے وائن اسٹائن کے ساتھ باہمی رضامندی سے جنسی تعلقات رہے ہیں۔ کسی نے بھی اپنے خلاف ہونے والے مبینہ جنسی جرم کو فوری طور پر پولیس کو رپورٹ نہیں کیا۔ اور ان خواتین کے پاس اپنے دعوے کا ثبوت موجود نہیں ہے۔
اس کے باوجود کہ نیویارک میں عدالتی جیوری کے سامنے وائن اسٹائن کے خلاف جن خواتین نے جبری جنسی زیادتی کی گواہی دی، ان میں سے اکثر کے وائن اسٹائن کے ساتھ باہمی رضامندی سے تعلقات رہے ، کسی نے اپنے خلاف ہونے والے مبینہ جنسی جرم کو فوری طور پر پولیس کو رپورٹ نہیں کیا، اور ان خواتین کے پاس اپنے دعوے کا ثبوت بھی موجود نہیں، وائن اسٹائن کو 2013 میں ایک خاتون کو ریپ کرنے اور 2006 میں ایک اور خاتون پر جنسی تشدد کے جرائم کی بنا پر سزا سنائی گئی ہے۔
نیویارک، مین ہٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی سائرس وینس جونئیر نے فیصلہ آنے کے بعد بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی، اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ایک نیا دن ہے۔ ریپ، ریپ ہی ہوتا ہے چاہے اس کا نشانہ بننے والا ایک گھنٹے بعد اس کی رپورٹ کرے، ایک سال بعد کرے یا کبھی بھی نہ کرے۔ یہ کسی بھی جنسی تشدد کے بعد کی پنجہ آزمائی اور رضامندی کے بیچ پیچیدہ کھیل کے باوجود ریپ ہی کہلائے گا۔ ہم اسے ریپ ہی کہیں گے، چاہے بعد میں اس کا کوئی بھی ثبوت میسر نہ ہو۔"
مگر کچھ خاتون وکلا کا کہنا تھا کہ ابھی اس فیصلے پر مسرت ظاہر کرنا قبل از وقت ہو گا۔
نیویارک میں نیشنل آرگنائزیشن فار وومن کی سربراہ سونیا اوسارو کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کی جانب اشارہ نہیں ہے کہ کسی نے جادو کی چھڑی چلا کر ہمارے اداروں کو بدل ڈالا ہے۔ یہ ایک مخصوص کیس ہے اور ایک فرد کے بارے میں ہے۔ ہمیں اس کیس کے فیصلے کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔"
ہاروی وائن اسٹائن کا کیس عالمی طور پر #MeToo کی تحریک کا موجب بنا، جس میں جنسی تشدد کو ایک جنس کی برتری کے محرکات اور جنسی زیادتی کے معاملے میں طاقت اور اثر و رسوخ کو جبری طور پر رضامندی کے ذریعے کے طور پر دیکھا گیا۔
وائن اسٹائن کے خلاف درجنوں خواتین نے عوامی طور پر گواہی دی کہ انہوں نے جنسی فوائد حاصل کرنے کے لیے انہیں دھمکایا، اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا، کہیں طاقت سے بات منوائی تو کہیں جسمانی جبر استعمال کیا۔
یہ واقعات عشروں پر محیط ہیں اور لاس اینجلس میں فلموں کی سکریننگ سے لے کر فرانس کے کینز فلمی میلوں اور نیو یارک اور لندن میں ہونے والی کاروباری میٹنگز کے دوران وقوع پزیر ہوتے رہے۔
وائن اسٹائن کی قانونی ٹیم کا موقف تھا کہ یہ واقعات باہمی رضامندی کی نوعیت کے تھے۔ بلکہ انہیں ’’لین دین‘‘ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ بقول، وائن سٹائن کے وکلاء کے، اگر وائن سٹائین کو خواتین سے کچھ درکار تھا، تو ان کا شکار ہونے والی خواتین کو وائن سٹائین کے فلمی صنعت میں رسوخ سے فوائد حاصل کرنے تھے۔
نیویارک ریاست سے تعلق رکھنے والے دفاعی وکیل پاؤل ڈیر او ہاننیسین جو جنسی جرائم سے تعلق رکھنے والے کیسز کے سابقہ پراسیکیوٹر بھی ہیں اور انہوں نے جنسی تشدد کے مقدمات سے متعلق کتاب بھی لکھی ہے، انھوں نے کہا کہ ’’یہ کیس جنسی تعلقات سے متعلق ہمارے موجودہ تصورات کو چیلنج کرتا ہے۔ اور، یہ کسی بھی جنسی تعلق میں رضامندی کے فقدان کا غماز ہے"
ان کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں جیوری کے سامنے جو پہلا سوال اٹھایا گیا تھا وہ ’’رضامندی’’ اور ’’جبری طور پر مجبور کیے جانے’’ کی قانونی تشریح پر مشتمل بیان ہے۔
اس ٹرائل میں سب سے پہلی گواہی جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کے ردعمل کے ماہر کا بیان ہے۔ انہوں نے اپنی گواہی میں کہا کہ یہ بات بہت عام فہم ہے کہ جنسی تشدد کا نشانہ بننے والا فرد اس واقعہ کے بعد بھی اسی فرد یا افراد کے ساتھ تعلقات استوار رکھے۔
اپنے فیصلے میں جیوری نے وائن اسٹائن کو ریپ اور جنسی تشدد کے جرائم کا مرتکب قرار دیا۔
نیویارک سے تعلق رکھنے والے کرمنل ڈیفینس اٹارنی رچرڈ کیپلن کا کہنا تھا کہ اس کیس کے فیصلے سے بہت سی خواتین کو حوصلہ ملے گا کہ وہ بھی سامنے آ کر اپنے اوپر بیتنے والے جرائم کی داستان سنا سکیں۔
بقول ان کے، ’’اب ہمارے پاس ایک لائحہ عمل ہے جس کے ذریعے اس قسم کے کیس کو جیتا جا سکتا ہے۔"