ہارورڈ اور ایم آئی ٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کا فیصلہ چیلنج کردیا

امریکہ میں مقیم غیر ملکی طلبہ کے ویزے پر جزوی پابندی لگانے کے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کو دو بڑی یونیورسٹیوں ہارورڈ اور میساچوٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یا ایم آئی ٹی نے عدالت میں چیلنج کردیا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے 6 جولائی کو اعلان کیا تھا کہ جو غیر ملکی طلبہ کرونا وائرس کی وجہ سے کیمپس نہیں جارہے اور آن لائن تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں، انہیں امریکہ چھوڑ کر اپنے ملک واپس جانا ہوگا۔ حکام کا کہنا تھا کہ جو طلبہ رضاکارانہ طور پر واپس نہیں جائیں گے، انہیں امیگریشن حکام واپس بھیج سکتے ہیں۔ البتہ وہ طالب علم امریکہ میں رہ سکتے ہیں جو کچھ کلاسیں آن لائن اور کچھ یونیورسٹی میں لیں گے۔

بوسٹن کی ایک عدالت میں بدھ کو دائر کی گئی درخواست میں ان دو یونیورسٹیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو اس فیصلے پر عمل درآمد سے روکا جائے اور اسے غیر قانونی قرار دیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسیمینٹ ایجنسی نے یہ فیصلہ سناتے ہوئے طلبہ، یونیورسٹی کے عملے اور کمیونٹی کے ارکان کی صحت کو لاحق خطرات کو مدنظر نہیں رکھا۔

یہ دونوں یونیورسٹیاں پہلے ہی اعلان کرچکی ہیں کہ موسم خزاں کے سمیسٹر کی تمام تدریس آن لائن کی جائے گی۔ ان کا موقف ہے کہ پیر کو جس نئی پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے، اس کے پیچھے سیاسی مقاصد ہیں۔ اس نے اعلیٰ تعلیمی نظام کو انتشار میں ڈال دیا ہے۔

ہارورڈ کے صدر لارنس بیکو نے ایک بیان میں کہا کہ یہ حکم بغیر کسی اطلاع کے جاری کیا گیا۔ اس حکم کی ظالمانہ نوعیت اس کی لاپرواہی سے بھی بڑھ کر ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد کالجوں اور یونیورسٹیوں پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ اپنے کیمپس میں کلاس روم لازماً کھولیں۔

دوسری جانب انتظامیہ اس فیصلے کا دفاع کررہی ہے۔ امریکہ میں کرونا وائرس کیسز میں اضافے کے باوجود صدر ٹرمپ زور دے رہے ہیں کہ سکولوں کو کھولا جائے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق امریکہ میں منگل کو 60 ہزار سے زیادہ نئے کیسز کی تصدیق ہوئی جو ایک دن میں نئے کیسز کا نیا ریکارڈ ہے۔ اسی لیے سکول اور یونیورسٹیاں کھولنے کے معاملے پر صدر ٹرمپ کو مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔

امریکہ میں پڑھنے والے پاکستانی طلبہ کو کیا تشویش ہے؟

لاہور سے تعلق رکھنے والی ملیحہ اسی سال امریکہ پڑھنے آئی تھیں۔ وہ نیویارک کے بیروچ کالج سے انفارمیشن سسٹمز میں ماسٹرز کررہی ہیں۔

ملیحہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں ڈگری حاصل کرکے امریکہ میں ہی نوکری تلاش کرنا چاہتی تھی۔ میں بعض ذاتی مسائل کی وجہ سے پاکستان واپس نہیں جانا چاہتی تھی۔ لیکن اب مستقبل غیر یقینی ہوگیا ہے۔ اگر یونیورسٹی کیمپس نہیں کھولتی تو واپس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ واپس جاکر تو میں شاید تعلیم بھی حاصل نہ کرسکوں۔

انھوں نے کہا کہ امریکہ میں یونیورسٹیوں اور سکولوں کو زبردستی کھلوایا جارہا ہے۔ ایک طرح سے دھمکی دی جارہی ہے، کیونکہ بظاہر وہ غیر ملکی طلبہ کو کھونا نہیں چاہتے۔ یہ ان کے لیے مالی طور پر بڑی صنعت ہے اس لیے انتظامیہ ان اقدامات کے ذریعے دباؤ ڈال رہی ہے۔

امریکہ میں تعلیم کی غرض سے آنے والے معیز ریحان دو امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ ملنے کے باوجود ماسٹرز کے لیے پولینڈ کا انتخاب کررہے ہیں۔ وہ چھ سال سے امریکہ میں ہیں۔ انہوں نے نیویارک کے ولیمز کالج سے لبرل آرٹس اور فرنچ میں ڈگری حاصل کی ہے۔

معیز ریحان کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ ان کے والد وزارت اطلاعات میں ڈرائیور ہیں اور والدہ سکول میں پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے محنت کرکے امریکہ میں سکالرشپ حاصل کی۔ وہ اس وقت ایک عارضی نوکری کررہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے معیز نے کہا کہ میں اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے ویسے بھی امریکہ میں تعلیم جاری نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے پولینڈ کی سکالرشپ کے لیے ویزے کا انتظار کررہا ہوں۔ امریکہ میں یونیورسٹیاں کھلنے سے صحت عامہ کا بحران پیدا ہوگا جو پہلے سے ہی سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ طلبہ وطن واپس جاکر بھی کیسے ان یونیورسٹیوں کی خدمات حاصل کرپائیں گے کیونکہ کہیں انٹرنیٹ ہے اور کہیں نہیں۔ ان ممالک کے اوقات کا فرق بھی طلبہ کو مشکل میں ڈال دے گا۔ کرونا وائرس کی پریشانی میں مبتلا ان لوگوں کو اب اپنے تعلیمی مستقبل کے بارے میں غیر یقینی مزید ڈپریشن میں ڈال سکتی ہے۔

ملیحہ اور معیز ان 10 لاکھ سے زیادہ غیر ملکی طلبہ و طالبات میں شامل ہیں جو بہتر مستقبل کے خواب لے کر امریکہ آتے ہیں۔ انھیں امید ہے کہ ہارورڈ اور ایم آئی ٹی کے بعد دیگر کالجز اور یونیورسٹیاں بھی حکومت کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔