افغانستان میں بین الاقوامی اور مقامی افواج پر مہلک حملوں میں ملوث حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی نے کہا ہے کہ اگر طالبان کی قیادت امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات پر آمادہ ہوئی تو اُن کی تنظیم بھی اس عمل کا حصہ بنے گی۔
’’ ہم افغانستان کے مستقبل کے لیے ہر اُس حل کی حمایت کریں گے جس کی تجویز ہماری شوریٰ (طالبان قیادت) کے ارکان دیں گے۔‘‘
کسی نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر نیوزایجنسی رائٹرز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں سراج الدین حقانی نے کہا ہے کہ امریکہ اورافغان صدر حامد کرزئی کی حکومت ماضی میں اُنھیں کئی مرتبہ امن کی پیشکش کر چکے ہیں لیکن اُنھیں مسترد کردیا گیا کیونکہ اُن کا مقصد محض عسکری تنظیموں میں پھوٹ ڈالنا تھا۔ اُن کے بقول اگر مستقبل میں پھر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو وہ بھی ناکام ہو جائے گی۔
’’اُنھوں نے ہمیں (حکومت میں) بہت اہم عہدوں کی پیشکش کی لیکن ہم نے اُنھیں مسترد کردیا اور اُنھیں بتایا کہ وہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ وہ ہمیں تقسیم کرنا چاہتے تھے۔‘‘
سراج الدین حقانی نے دعویٰ کیا کہ میدان جنگ کی کامیابیوں نے اُن کے جنگجوؤں کے لیے افغانستان کو زیادہ محفوظ بنا دیا ہے اس لیے اب اُنھیں سرحد پار سنگلاخ پہاڑیوں پر مشتمل قبائلی علاقوں میں پناہ گاہوں کی ضرورت نہیں رہی۔ ’’وہ دن گئے جب ہم پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر پہاڑیوں میں چھپتے تھے۔ اب اہم افغانستان میں افغان عوام کے ساتھ اپنے آپ کوزیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ اعلیٰ فوجی اور پولیس افسران ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘
سراج الدین حقانی کے والد جلال الدین حقانی کا شمار افغانستان پر روسی افواج کے قبضے کے خلاف برسرپیکار اہم مجاہد کمانڈروں میں ہوتا ہے لیکن ضعیف العمری اور ناسازی طبع کے باعث اُنھوں نے تنظیم کی قیادت اپنے بیٹے کو سونپ رکھی ہیں۔
باور کیا جاتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے جنگجو افغانستان میں حملوں کے لیے پاکستان کے سرحدی علاقے شمالی وزیرستان کو استعمال کرتے ہیں اور امریکہ طویل عرصے سے پاکستانی حکام پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ ان عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن شروع کرے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے پاکستان کے جاسوسی کے ادارے آئی ایس آئی کے ساتھ رابطے ہیں لیکن پاکستانی حکام ان الزامات کو رد کرتے ہے۔
افغانستان میں تعینات امریکی افواج سراج الدین حقانی کو انتہائی مہلک دشمن سمجھتی ہیں اور امریکہ نے اُس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ ڈالر مقرر کررکھی ہے۔
سراج الدین حقانی سے جب پوچھا گیا کہ ذرائع ابلاغ میں اُن کے جنگجوؤں کی تعداد دس ہزار بتائی جاتی ہے تو ’’اُنھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ تعداد اصل تعداد سے درحقیقت کم ہے۔‘‘
باور کیا جاتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک نے افغانستان میں خودکش حملے متعارف کرائے اور ملک میں ہونے والے بڑے حملوں میں بھی یہی تنظیم ملوث ہے جس میں صدر کرزئی پر قاتلانہ حملہ اور کابل میں بھارتی سفارت خانے پر خودکش کار بم دھماکے شامل ہیں۔
امریکی حکام کو شبہ ہے کہ راوں ہفتے افغان دارالحکومت میں امریکی سفارت خانے کے احاطے پر راکٹ حملہ اورمشرقی افغانستان میں اُس کے حالیہ ٹرک بم دھماکے میں بھی حقانی نیٹ ورک کے جنگجو ملوث تھے جس میں لگ بھگ اسی امریکی فوجی زخمی ہوگئے تھے۔
ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ آپریشن کے بعد سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدگی کا شکار رہے ہیں تاہم حال ہی میں کوئٹہ کے مضافات سے القاعدہ کے اہم کمانڈر یونس الموریطانی کی امریکی حکام کی معاونت سے گرفتاری کو دو طرفہ تعلقات خصوصاَ دہشت گردی کے خلاف تعاون میں بہتری کے لیے اچھی نوید قرار دیا جا رہا تھا۔
لیکن افغانستان میں اس ماہ امریکی اہداف پر دو بڑے حملوں میں حقانی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کی اطلاعات سے دو طرفہ تعلقات میں بہتری کی اُمیدوں کو دھچکا لگا ہے۔
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے بدھ کو متنبہ کیا تھا کہ امریکہ پاکستانی پناہ گاہوں سے عسکریت پسندوں کو افغانستان میں امریکی افواج پر حملے کرنے کی اجازت نہیں دے گا اور اُنھیں روکنے کے لیے کوئی بھی قدم اُٹھانے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ لیکن پاکستانی وزارت خارجہ نے ان کے اس بیان کے دہشت گردی کے خلاف پاک امریکہ تعاون کے منافی قرار دیا تھا۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق سپین میں نیٹو کے وزرائے دفاع کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن کے ساتھ ملاقات اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن سے ملاقات میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آئے گا۔