حماس کی نئی پالیسی، اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا گیا

غزہ میں حماس کے سینیئر راہنما اپنے جلاوطن قائد خالد مشعال کی دوحا میں ہونے والی پریس کانفرنس دیکھ رہے ہیں۔

حماس غزہ کی پٹی پر برسر اقتدار ہے اور اپنے سیاسی حریف گروپ 'فتح' اور اس کے راہنما محمود عباس سے اختلافات رکھتا ہے۔

فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے نئی پالیسیوں پر مبنی دستاویز جاری کی ہیں جن میں یہود مخالف زبان کو حذف کرتے ہوئے 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ سے قبل کے علاقوں پر مشتمل فلسطینی ریاست کے قیام پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔

تاہم اس نئی دستاویز میں مصر کے ساتھ قریبی تعلقات پر زور دیتے ہوئے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کیا گیا اور دہائیوں پہلے یہودی ریاست کے قیام سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی اپنے وطن واپسی کے مطالبے کو دہرایا گیا ہے۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ " حماس کہ ایک مکمل آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام جس کا دارالحکومت یروشلم ہو، چاہتا ہے جو کہ چار جون 1967ء سے قبل (کی حدود) کے مطابق ہو اور تمام بے گھر افراد کی ان کے گھروں کو واپسی چاہتا ہے۔"

حماس کی اس نئی پالیسی پر فوری طور پر مغربی ممالک کی طرف سے ردعمل سامنے نہیں آیا اور یہ بھی واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اس سے اسرائیل اور دیگر متعدل خیال عرب ریاستوں کے ساتھ حماس کے تعلقات کیسے استوار ہوں گے جو اسے ایک دہشت گرد گروپ تصور کرتی ہیں۔

حماس غزہ کی پٹی پر برسر اقتدار ہے اور اپنے سیاسی حریف گروپ 'فتح' اور اس کے راہنما محمود عباس سے اختلافات رکھتا ہے۔

پیر کو حماس کی طرف سے دوحا میں پالیسی کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا جب محمود عباس بدھ کو پہلی مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے واشنگٹن میں روبرو ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔