فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تنظیم 'حماس' کے رہنمائوں نے خالد مشعل کو ایک بار پھر آئندہ چار برسوں کے لیے تنظیم کا سربراہ منتخب کرلیا ہے۔
واشنگٹن —
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تنظیم 'حماس' کے رہنمائوں نے خالد مشعل کو ایک بار پھر آئندہ چار برسوں کے لیے تنظیم کا سربراہ منتخب کرلیا ہے۔
مشعل کا انتخاب مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں حماس کے لگ بھگ 60 مرکزی رہنمائوں پر مشتمل اعلیٰ ترین کونسل کے رات بھر جاری رہنے والے اجلاس میں عمل میں آیا۔
ایک سفارتی ذریعے کے مطابق خالد مشعل کے دوبارہ انتخاب کے پیچھے قطر اور مصر کی حکومتوں کی سرگرم کوششیں بھی کار فرما تھیں جنہوں نے اجلاس میں شریک رہنمائوں کو مشعل کے انتخاب پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اطلاعات کے مطابق خالد مشعل تنظیم کے سربراہ کی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھالنے پر ہچکچاہٹ کا شکار تھے اور انہوں نے ماضی میں اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
اسرائیل کے زیرِ قبضہ فلسطینی علاقے مغربی کنارے میں جنم لینے والے خالد مشعل کی عمر 56 برس ہے اور وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے عرب ممالک میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
حماس کے مقبول عام موقف کے باوصف مشعل بھی اسرائیل کا حقِ وجود تسلیم کرنے سے انکار کرتے آئے ہیں۔
لیکن انہوں نے چار ماہ قبل حماس کے زیرِ انتظام علاقے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد حماس و اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کرانے کی مصری کوششوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
حماس کی مقابل تنظیم الفتح سے تعلق رکھنے والے فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ اختلافات کے خاتمے کی کوششیں کرنے پر انہیں گزشتہ برس غزہ میں موجود حماس کی قیادت نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا اور ان کی مفاہمت کی کوششوں سے لاتعلقی ظاہر کی تھی۔
مشعل کے انتخاب کے بعد حماس کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے 'مجلسِ شوریٰ' نے "تنظیم کے سیاسی شعبے کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے دوبارہ برادر خالد مشعل پر اعتماد کیا ہے"۔
خالد مشعل کو عالمی شہرت اس وقت ملی تھی جب ان پر 1997ء میں اردن میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے قاتلانہ حملہ کیا تھا جس میں وہ کئی روز جانکنی کے عالم میں گزارنے کے بعد بچ نکلے تھے۔
وہیل چیئر کے سہارے کے محتاج حماس کے معمر بانی شیخ احمد یاسین کی 2004ء میں ایک اسرائیلی حملے میں ہلاکت کے بعد مشعل کو ان کا جانشین منتخب کیا گیا تھا۔
مصر کی اخوان المسلمون سے نظریاتی طور پر ہم آہنگ 'حماس' کا قیام 1988ء میں فلسطینیوں کے اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے عروج کے دورمیں عمل میں آیا تھا۔
اس وقت یہ تنظیم اسرائیل اور سمندر سے گھرے فلسطینی علاقے غزہ پر حکمران ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے اسرائیل کے محاصرے میں ہے۔
مشعل کا انتخاب مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں حماس کے لگ بھگ 60 مرکزی رہنمائوں پر مشتمل اعلیٰ ترین کونسل کے رات بھر جاری رہنے والے اجلاس میں عمل میں آیا۔
ایک سفارتی ذریعے کے مطابق خالد مشعل کے دوبارہ انتخاب کے پیچھے قطر اور مصر کی حکومتوں کی سرگرم کوششیں بھی کار فرما تھیں جنہوں نے اجلاس میں شریک رہنمائوں کو مشعل کے انتخاب پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اطلاعات کے مطابق خالد مشعل تنظیم کے سربراہ کی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھالنے پر ہچکچاہٹ کا شکار تھے اور انہوں نے ماضی میں اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
اسرائیل کے زیرِ قبضہ فلسطینی علاقے مغربی کنارے میں جنم لینے والے خالد مشعل کی عمر 56 برس ہے اور وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے عرب ممالک میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
حماس کے مقبول عام موقف کے باوصف مشعل بھی اسرائیل کا حقِ وجود تسلیم کرنے سے انکار کرتے آئے ہیں۔
لیکن انہوں نے چار ماہ قبل حماس کے زیرِ انتظام علاقے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد حماس و اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کرانے کی مصری کوششوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
حماس کی مقابل تنظیم الفتح سے تعلق رکھنے والے فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ اختلافات کے خاتمے کی کوششیں کرنے پر انہیں گزشتہ برس غزہ میں موجود حماس کی قیادت نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا اور ان کی مفاہمت کی کوششوں سے لاتعلقی ظاہر کی تھی۔
مشعل کے انتخاب کے بعد حماس کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے 'مجلسِ شوریٰ' نے "تنظیم کے سیاسی شعبے کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے دوبارہ برادر خالد مشعل پر اعتماد کیا ہے"۔
خالد مشعل کو عالمی شہرت اس وقت ملی تھی جب ان پر 1997ء میں اردن میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے قاتلانہ حملہ کیا تھا جس میں وہ کئی روز جانکنی کے عالم میں گزارنے کے بعد بچ نکلے تھے۔
وہیل چیئر کے سہارے کے محتاج حماس کے معمر بانی شیخ احمد یاسین کی 2004ء میں ایک اسرائیلی حملے میں ہلاکت کے بعد مشعل کو ان کا جانشین منتخب کیا گیا تھا۔
مصر کی اخوان المسلمون سے نظریاتی طور پر ہم آہنگ 'حماس' کا قیام 1988ء میں فلسطینیوں کے اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے عروج کے دورمیں عمل میں آیا تھا۔
اس وقت یہ تنظیم اسرائیل اور سمندر سے گھرے فلسطینی علاقے غزہ پر حکمران ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے اسرائیل کے محاصرے میں ہے۔