پاکستانی نوجوانوں میں سے تقریباً نصف یہ سمجھتے ہیں کہ فروری 2024 میں ہونے والے انتخابات ان کی روز مرہ زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالیں گے۔
نوجوانوں کی یہ رائے وائس آف امریکہ کے سروے میں سامنے آئی ہے جو رائے عامہ کا سائنٹفک بنیادوں پر جائزہ لینے والے ملٹی نیشنل ادارے اپسوس نے کیا ہے۔
سروے میں 18 سے 34 برس کی عمر کے نوجوانوں سے جب یہ پوچھا گیا کہ آئندہ انتخابات کے نتائج ان کی روز مرہ زندگی پر کتنے اثر انداز ہوں گے تو 48 فی صد نوجوانوں نے دیے گئے آپشنز میں سے ’بالکل نہیں‘ کا انتخاب کیا۔
انتخابات سے متعلق یہ رائے ایک ایسے ملک کے نوجوانوں کی ہے جہاں 18 سے 35 برس کی عمر کے ووٹرز کی تعداد 44 فی صد سے زائد ہے۔
ماہرین کے مطابق ملک کے موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں رائے دہندگان کی یہ رائے زمینی حقائق سے قریب معلوم ہوتی ہے۔
انتخابات کے نتائج کے زندگی پر اثر انداز نہ ہونے کی رائے سب سے زیادہ بلوچستان میں پائی جاتی ہے جہاں 60 فی صد سے زائد نوجوانوں نے اس کا اظہار کیا ہے۔
دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا (51 فی صد سے زائد) اور اس کے بالترتیب پنجاب اور سندھ میں 47 اور 43 فی صد سے زائد نوجوان بھی آئندہ انتخابات کے نتائج کے بعد اپنی زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھتے۔
سروے کے مطابق دیہی آبادی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں یہ رائے زیادہ پائی جاتی ہے (52 فی صد) کہ انتخابات ان کی زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالیں گے۔
اسی طرح مردوں کے مقابلے میں خواتین میں یہ احساس زیادہ ہے کہ انتخابات سے ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
نتائج حقائق سے کتنے قریب ہیں؟
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت پر عوام کا اعتماد پہلے ہی متزلزل ہے۔
ان کے بقول میڈیا میں اپنی رائے کا اظہار کرنے والے زیادہ تر لوگ کہہ رہے ہیں کہ آٹھ فروری کا انتخاب شفاف نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی فوج، عدلیہ، سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ پر بھی ان کا اعتماد نہیں ہے۔ ایسے حالات میں یہ رائے درست لگتی ہے کہ لوگوں کو انتخابات کے بعد بھی اپنے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ انتخابات میں پہلے مداخلت در پردہ ہوتی تھی لیکن اب براہِ راست نظر آ رہی ہے۔ ایسی صورت میں یہ دیکھنا ہوگا کہ آئندہ سیٹ اپ میں کس طرح ایسا سیاسی نظم و نسق قائم ہو سکتا ہے جو مستحکم بھی ہو اور جس پر لوگوں کو اعتبار بھی ہو۔
عالمی بینک سے وابستہ رہنے والے ماہرِ معیشت اور محقق ڈاکٹر ایوب مہر کہتے ہیں کہ پاکستان میں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن سے سیاسی استحکام آئے گا اور اس سے عام لوگوں کی زندگی پر کوئی فرق پڑے گا، وہ دراصل مغربی جمہوریت کو دیکھتے ہوئے یہ رائے دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مغرب میں سیاسی جماعتیں اپنا منشور پیش کرتی ہیں جن میں ان کا اقتصادی پروگرام ہوتا ہے اور اسی پروگرام پر انہیں ووٹ ملتا ہے۔ اس پروگرام پر عمل درآمد سے کسی طبقے کو ریلیف ملتا ہے اور کسی پر بوجھ بڑھتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر ایوب کے بقول پاکستان میں اگر سیاسی جماعتوں کے منشور دیکھیں تو وہ منشور سے زیادہ ان کی ’وش لسٹ‘ یا خواہشات کا مجموعہ ہوتا ہے جس میں سیاست دان کہتے ہیں کہ اتنے لاکھ نوکریاں دے دیں گے یا اتنے گھر بنا دیں گے، مہنگائی بے روزگاری کم کر دیں گے اور ٹیکس ختم کر دیں گے۔
ڈاکٹر ایوب کے بقول ایسی خواہشات اور وعدوں سے عام آدمی کے حالات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ڈاکٹر ایوب مہر کے مطابق عام شہریوں کو درپیش معاشی مشکلات کا اندازہ لگانے کے لیے ’اکنامک مزری انڈیکس‘ بنایا جاتا ہے۔ معاشی پریشانیوں کا یہ انڈیکس امریکی ماہرِ معیشت آرتھر آکن نے بنایا تھا جس کے مطابق بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے غربت بڑھتی ہے اور عام شہریوں کے معاشی حالات کے لیے انہی دو اشاریوں کو دیکھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مزری انڈیکس کے مطابق پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری کی صورتِ حال میں بہتری نہیں آئی ہے۔ عام آدمی ان دو چیزوں سے ہی متاثر ہوتا ہے اور یہ دونوں ہی ابتری کا شکار ہیں۔
ڈاکٹر مہر کے بقول ان حالات کی وجہ سے اگر 48 فی صد نوجوان انتخابات کو اپنی روز مرہ زندگی کے لیے غیر مؤثر سمجھتے ہیں تو یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کا اثر ٹرن آؤٹ پر بھی پڑ سکتا ہے۔
نتائج مؤثر کیسے ہو سکتے ہیں؟
سروے کے ایسے شرکا جنھوں نے انتخابی نتائج کے کسی بھی حد تک مؤثر ہونے کی رائے ظاہر کی تھی، ان سے پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں یہ نتائج کس طرح ان کی روز مرہ زندگی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟
اس سوال کے لیے انہیں جواب کے آپشنز نہیں دیے گئے تھے بلکہ اپنے الفاظ میں اپنی رائے بیان کرنے کا کہا گیا تھا۔
سروے کے مطابق زیادہ تر نوجوانوں کا کہنا تھا کہ انتخابات کے نتائج اسی صورت میں کسی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں جب یہ شفاف ہوں اور منتخب ہونے والے نمائندوں کو اپنے منشور کے مطابق کام کرنے دیا جائے۔
شرکا کا کہنا تھا کہ اگر غلط فیصلے کیے گئے تو انتخابی نتائج ان کی روز مرہ زندگی پر منفی اثر مرتب کریں گے۔
رائے دینے والوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ انتخابی نتائج اسی وقت مؤثر ہوں گے جب نئی حکومت اپنی ذمے داریاں بخوبی انجام دے گی اور غریبوں کی مشکلات کا احساس کرے گی۔