غزہ جنگ کے چھ ماہ مکمل
حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد اسرائیل نے غزہ کا اسی دن محاصرہ کرکے حملے شروع کر دہے تھے۔
حماس اور غزہ کی ایک اور عسکری تنظیم اسلامی جہاد نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر سیکڑوں میزائل بھی داغے تھے۔
اسرائیل کے مطابق حماس نے اسرائیلی علاقوں پر حملوں کے دوران یرغمال بنائے گئے افراد کو غزہ میں سرنگوں میں قیدی بنا کر رہا ہے۔ البتہ اب تک ان سرنگوں سے اسرائیلی فورسز قیدیوں کی بازیابی میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ پر سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد ہی فضائی حملے شروع کر دیے تھے جب کہ لگ بھگ تین ہفتوں کے بعد زمینی کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔
اسرائیل کے مطابق سات اکتوبر کو حماس کے حملے میں ہلاک ہونے والوں میں عام شہریوں کی اکثریت تھی۔ حماس نے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر زمین، فضا اور بحری راستے سے ایک ساتھ حملہ کیا تھا۔
اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کرکے فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کے احکامات دیے تھے جس کے بعد ایک ایک کرکے بیشتر علاقوں کو شہریوں نے انخلا کیا اور اب رفح کے قریب پناہ گزین کیمپ میں ان کی اکثریت موجود ہے۔
اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد بھی حماس نے میزائل حملوں میں اسرائیلی علاقوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔
غزہ میں اسرائیل کے حملوں کے سبب بیشتر عمارتین تباہ ہو چکی ہیں۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ تباہ حال عمارتیں اب رہنے کے قابل نہیں ہیں۔
حماس نے ساتھ اکتوبر 2023 کے حملے میں ڈھائی سو سے زائد افراد کو یرغمال بنایا تھا جن میں سے 100 سے زائد کو نومبر میں چند دن کی جنگ بندی میں رہا کر دیا گیا تھا جب کہ 100 اسرائیلی اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں۔
اسرائیل اور حماس میں نومبر 2023 میں چند دن کی جنگ بندی کے دوران حماس نے 100 سے زائد یرغمالوں کو رہا کیا تھا جب کہ اس دوران اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کو رہائی ملی تھی۔
اسرائیل نے غزہ میں کئی اسپتالوں میں بھی کارروائی کی ہے۔ اسرائیلی فورسز کا الزام ہے کہ حماس ان اسپتالوں کے نیچے سرنگوں کو اپنی عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال کرتی ہے جب کہ حماس ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
حماس کی تحویل میں موجود 100 سے زائد یرغمالوں کی رہائی کے لیے اسرائیل میں مسلسل احتجاج ہو رہا ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ وہ حماس کے خاتمے اور یرغمالوں کی رہائی تک جنگ جاری رکھے گا البتہ آدھا سال گزرنے کے باوجود اسرائیل یرغمالوں کو بازیاب کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں چھ ماہ سے جاری جنگ کے دوران فلسطینیوں کو امداد کی فراہمی ناکافی ہے۔ ان کو خوراک، ادویات اور دیگر ضروریات کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
اسرائیل کے حملوں میں فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے امدادی رضاکار بھی ہلاک ہوئے ہیں جس کے سبب اسرائیل پر جنگ بندی کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے جنگ میں ڈھائی سو سے زائد اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ کی آبادی لگ بھگ 23 لاکھ ہے جس میں سے 90 فی صد سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان بے گھر فلسطینیوں کی اکثریت رفح میں عارضی کمیپوں میں منتقل ہو چکی ہے۔
اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم گزشتہ چھ ماہ میں حماس کے میزائل حملوں کو ناکام بناتا رہا ہے۔
غزہ میں جنگ کے دوران ہلاک ہونے والوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔
اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حماس کے حملوں اور لبنان سے عسکری تنظیم حزب اللہ کے میزائل حملوں کے سبب شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی کارروائیوں میں چار سو سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
غزہ میں بیشتر اسپتال بند ہو چکے ہیں اور جو چند اسپتال فعال ہیں ان میں بھی پوری استعداد کے ساتھ زخمیوں کا علاج کرنے کی سہولیات موجود نہیں ہیں جس کے سبب رضاکار زیادہ اموات کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں۔
عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
غزہ میں مسلسل اموات کے سبب ہلاک ہونے والوں کو اب اجتماعی قبروں میں دفنایا جا رہا ہے۔
اسرائیل میں شہریوں کی جانب سے یرغمالوں کی بازیابی اور حکومت سے مستعفی ہونے کے لیے احتجاج میں بھی شدت آتی جا رہی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں جنگ بندی اور غزہ میں امداد کی فراہمی کے لیے احتجاج کیا جا رہا ہے۔
امریکہ سمیت بعض ممالک غزہ میں شہریوں کو فضا سے امداد پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی فورسز حماس کی کئی سرنگیں تباہ کر چکی ہے جب کہ فورسز کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے حماس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کو تباہ کر دیا ہے۔
اسرائیل میں وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے استعفے کے لیے مسلسل احتجاج ہو رہا ہے۔
حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی کی کارروائیوں میں 33 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 75 ہزار زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد اسرائیلی شہریوں میں اپنے دفاع کے لیے ہتھیار چلانا سیکھنا اور اپنے پاس رکھنے کی شرح بڑھ رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرار داد کثرت رائے سے منظور ہو چکی ہے البتہ اب بھی غزہ میں لڑائی جاری ہے۔
رفح میں قائم عارضی کمیپوں میں فلسطینیوں کو بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔
غزہ کے شمالی اور وسطی علاقوں سے فلسطینی نقل مکانی کرکے مصر کی سرحد کے قریب عارضی کمیپوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔
اسرائیل اور حزب اللہ میں بھی کشیدگی بڑھ رہی ہے اور دونوں جانب سے عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔