وائس آف امریکہ کے واشنگٹن آفس میں جمعرات کو حلیم کی دعوت ہوئی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ آج ہم نے حلیم کھایا۔ کچھ نے کہا، حلیم کھائی۔ کراچی اور پنجاب کے صحافیوں میں خوب بحث ہوئی۔ ایک صاحب کا تعلق نہ کراچی سے تھا اور نہ پنجاب سے۔ انھوں نے فرمایا کہ یہ بحث کر کے آپ لوگوں نے دماغ کا دہی بنا دیا۔
اس کے بعد نئی بحث شروع ہوئی کہ دہی ہوتا ہے یا ہوتی ہے۔ اس بحث میں پستول ہوتا ہے، پستول ہوتی ہے، ٹکٹ ہوتا ہے، ٹکٹ ہوتی ہے، تار ہوتا ہے، تار ہوتی ہے اور فوٹو ہوتا ہے، فوٹو ہوتی ہے جیسے مسائل بھی سامنے آئے۔
پشتون دوست بھی میدان کارزار میں کودے اور انھوں نے دعویٰ کیا کہ نماز ہوتا ہے، روزہ ہوتی ہے، کتاب ہوتا ہے، پانی ہوتی ہے، گاڑی ہوتا ہے اور چاند ہوتی ہے۔ سب سے الم ناک بات انھوں نے یہ کہی کہ موت ہوتا ہے۔ اس پر مجاز لکھنوی بے طرح یاد آئے جنھوں نے یہ شعر کہا تھا،
موت بھی اس لیے گوارا ہے
موت آتا نہیں ہے، آتی ہے
مجاز کو اگر معلوم ہوتا کہ موت آتی نہیں ہے، آتا ہے تو شاید جوانی میں انتقال کرنے سے باز آ جاتے۔
میں نے ممتاز ڈرامہ نگار ظفر عمران سے رابطہ کیا جنھیں کچھ لوگ ماہر لسانیات اور بعض شرپسند دوست لسانی دہشت گرد کہتے ہیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ کراچی میں ہم نے حلیم کو ہمیشہ مذکر سنا ہے۔ آپ کے خیال میں حلیم کھایا جاتا ہے یا کھائی جاتی ہے؟ انھوں نے یہ کہہ کر دل توڑ دیا کہ پنجاب میں حلیم کھائی جاتی ہے۔
لیکن پھر انھوں نے کہا کہ حلیم کو دونوں طرح سے کھانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ خالی پیٹ لسانی فساد نہیں کیا جا سکتا۔ لکھنئو اور دہلی کی طرح کراچی اور پنجاب میں کئی الفاظ کی تذکیر و تانیث مختلف ہے۔ شان الحق حقی نے کہا تھا کہ اہل زبان جس طرح بولیں، اسے ٹھیک سمجھا جائے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یوپی یا کراچی والوں کو ہمیشہ درست تسلیم کیا جائے گا۔ کہیں اختلاف ہو گا تو اساتذہ کا کلام دیکھا جائے گا۔ پنجاب نے منٹو، بیدی اور اقبال کو جنم دیا ہے۔ استاد نے اگر ایک آدھ بار غلط لکھ دیا تو اور بات ہے لیکن تسلسل سے جیسا لکھا ہو گا وہی سند مانا جائے گا۔
ظفر عمران نے کہا کہ کچھ لوگ میوزک کو مذکر اور بعض موسیقی کی طرح مونث بولتے ہیں۔ اس بات پر مجھے دور طالب علمی میں پروفیسر سحر انصاری کا سنا ہوا ایک لیکچر یاد آیا۔ انھوں نے کہا تھا کہ جب کسی غیر زبان کا لفظ اردو میں استعمال کرنا پڑے تو یہ دیکھیں کہ اردو میں اس کا مترادف مذکر ہے یا مونث؟ یعنی روڈ کی جنس معلوم نہیں ہو رہی تو پھر سڑک کی جنس کے مطابق اسے مونث سمجھیں۔
میں نے یہ بات ایک کولیگ کو بتائی تو انھوں نے کہا، اب آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ پشتون دوست مذکر مونث کی غلطی نہیں کرتے بلکہ اردو الفاظ کو پشتو کے تذکیر و تانیث والے فارمولے کے تحت بولتے ہیں۔ نماز کو پشتو میں مونز کہتے ہیں جو مذکر ہے۔ روزے کو پشتو میں روژہ کہتے ہیں جو مؤنث ہے۔ یہی معاملہ دوسرے الفاظ کا ہے۔
ظفر عمران نے کہا کہ ماہرین لسانیات مذکر مونث غلط بولنے میں چھوٹ دیتے ہیں البتہ املا ٹھیک کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوا کہ املا ہوتا ہے یا املا ہوتی ہے کیونکہ اس بارے میں بھی اختلاف ہے۔ ماہرین رفع شر کے لیے دونوں کو درست قرار دیتے ہیں۔ یہی معاملہ سانس، فکر اور نقاب بلکہ گیم اور ڈیسک کا بھی ہے۔
ممتاز شاعر نصیر ترابی لسانیات کی ایک کتاب شعریات مرتب کر چکے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا تذکیر و تانیث کا کوئی فارمولا ہے کہ جس کے تحت کراچی اور پنجاب کا اختلاف ختم کرایا جاسکے؟ نصیر ترابی نے کہا، نہیں۔ کوئی فارمولا نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا۔ لسانیات میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لفظ اپنا معنی فراہم کر رہا ہے یا نہیں۔ حلیم کو مونث بولنے سے آپ کے ذہن حلیم کی پلیٹ ہی آتی ہے یا نہاری کا ڈونگہ؟ اگر ذہن میں حلیم کی شبیہہ بن رہی ہے تو مذکر مونث کی بحث لایعنی ہے۔