ہیٹی: قدرتی آفات اور سیاسی گرداب کا شکار ملک

ہیٹی: قدرتی آفات اور سیاسی گرداب کا شکار ملک

ہیٹی میں آنے والا ہول ناک زلزلہ عشروں سے سیاسی بھونچال، غربت اور قدرتی آفات کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ملک کا تازہ ترین المیہ ہے۔

سات درجے شدت سے آنے والے اس زلزلے میں ہونے والی تباہی بمشکل ہیٹی پر عشروں سے بیتنے والے مسائل اور مصائب کی داستان کو عیاں کرتی ہے۔

ہیٹی کے پہلے جمہوری انتخابات واضح برتری سے جیت کر جنوری 1991ء میں صدر ژان برتاں ایسترائد منسبِ صدارت پر براجمان ہوئے تھے۔ ابھی انھیں یہ منصب سنبھالے نو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ ستمبر میں فوج نے اُن کا تختہ الٹ دیا۔

جب امریکی صدر بل کلنٹن نے جمہوریت کے قیام میں مدد دینے کی خاطر ہزاروں افواج کو ہیٹی کی طرف روانہ کرنے کے احکامات صادر کیے تو اکتوبر 1994ء میں مسٹر ایسترائد ایک بار پھر اقتدار میں آ گئے۔

بہ مشکل ایک سال گزرا ہو گا کہ سابق وزیرِ اعظم رینے پریوال ہیٹی کے نئے صدر بن بیٹھے، پھر نومبر 2000ء میں مسٹر ایسترائد پھر منصبِ صدارت پر فائز ہوئے، تاہم انتخابی بدعنوانی کی خبریں بھی عام تھیں۔

فروری 2004ء آنے کی دیر تھی کہ عوامی انقلاب برپا ہوا اور مسٹر ایسترائد ہیٹی سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اب،ہیٹی کی تعمیرِ نو میں مدد دینے کی خاطر وہ اپنی جلاوطنی کو خیرباد کر کے ملک کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔

متنازع انتخابی نتائج پر ہونے والی بین الاقوامی مصالحت کے نتیجے میں2006ء میں ایک بار پھرمسٹر پریوال نے ہیٹی کی صدارت سنبھال لی۔

پھر یوں ہوا کہ خوراک کی بڑھی ہوئی قیمتوں پر ہونے والے ہنگاموں کے نتیجے میں اپریل 2008ء میں ہیٹی کے قانون سازوں نے وزیرِ اعظم یاک ایڈوئارڈن الیکس کا مواخذہ کرتے ہوئے برطرف کر دیا۔

سیاسی اتھل پتھل ہی کیا کم تھی کہ اب قدرتی آفات کے سلسلے نے اپنا کام دکھانا شروع کر دیا۔ 2004ء کے ستمبر میں سمندری طوفان کے سبب آنے والی طغیانی کے نتیجے میں تقریباً تین ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔

2008ء میں چار آندھیوں اور سمندری طغیانی کے باعث 800 سے زائد افراد لقمہٴ اجل بنے اور دس لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے۔

اُسی سال نومبر میں، پورٹ او پرنس کے مضافات میں سکول کی عمارت منہدم ہونے سے 95 بچے ہلاک ہوئے، جِس کا الزام تعمیر کے اطمینان بخش کام نہ کیے جانے پر دھرا گیا۔

امریکہ میں ہیٹی کے سفیر ریمنڈ جوزف کا کہنا ہے کہ ہیٹی کے مسائل سے گِھرا ماضی استقامت کے جذبے سے سرفراز کرتا ہے۔

اُن کے بقول، ‘مجھے توقع ہے کہ ہیٹی کے لوگ مل کر اِس کا مقابلہ کریں گے۔ بیرونِ ملک لوگ جو رقوم فراہم کر کے ملک کی مدد کرتے رہے ہیں اُن کو ایک بار پھر اپنی جیبوں کو ٹٹولنا ہو گا، اور داخلی طور پر شہریوں کو اتحاد کا مظاہرہ کر کے یہ جتلانا ہو گا کہ ہم نئے امتحان میں سرخرو ہوں گے۔ ’

لیکن طرزِ عمل کا اظہار کافی نہیں۔ ماجرا یہ ہے کہ ہیٹی کے لاکھوں لوگ خوراک، پانی اور دوائیوں کی شدید ضرورت سے دوچار ہیں۔ اور، اِن ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ بین الاقوامی برادری کو 55کروڑ ڈالر کی امداد فراہم کرنے کی اپیل کر رہا ہے۔