ہیٹی کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے زور دیا کہ جو لوگ انفرادی طور پر اس سانحے سے متاثر ہونے والوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں وہ کیش کی صورت میں مدد کریں۔
بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا بھر سے لوگ اس سانحے میں مدد کرنا چاہتے ہیں اور ضرورت کی اشیا بھیجنا چاہتے ہیں لیکن ”فی الحال ہمارے پاس ان چیزوں کو جمع کرنے یا لوگوں تک پہنچانے کی صلاحیت نہیں ہے کیوں کہ سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں اور بجلی بند ہے۔”
انہوں نے زور دے کر کہا کہ لوگوں کو چاہیئے کہ وہ ایک ڈالر بھی دے سکتے ہوں تو نقد دیں تاکہ اقوامِ متحدہ کا عملہ متاثرین کو خوراک، صاف پانی، ادویات اور سر چھپانے کا سامان مہیا کر سکے۔
ترقی یافتہ ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہیٹی کی تعمیر و ترقی کے لیے بہت سے ممالک نے امداد کا وعدہ کر رکھا ہے جس کی مکمل رقم اب تک وصول نہیں ہوئی۔ ہنگامی امداد کے ساتھ ساتھ جلد از جلد پرانے وعدے پورے کرنے سے بھی ہیٹی کی بہت مدد ہو گی۔
سیکرٹری جنرل بان گی مون نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ انہوں نے اس آفت سے نمٹنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے ایمرجنسی فنڈ سے ایک کروڑ ڈالر فوری طور پر جاری کر دیے ہیں اور مزید ضروریات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔
ہیٹی کی ایک کروڑ آبادی کا کم از کم ایک تہائی اس آفت سے متاثر ہوا ہے۔ مرنے والوں کی تعداد کا ابھی تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا لیکن مسٹر بان کے مطابق یہ تعداد بہت زیادہ ہو گی۔ لا تعداد افراد ابھی تک ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور انہیں نکالنے کی کوششیں جاری ہیں۔
مسٹر بان کے مطابق جب ہیٹی کے کرسٹوفر ہوٹل میں واقع اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر منہدم ہوا تو اس میں سو کے قریب افراد کام کر رہے تھے، جن میں سے اکثر ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان میں یو این مشن کے سربراہ نمائندہ ائیدی انابی اور ان کے نائب لوئیس کارلوس ڈکوسٹا بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے دیگر دفاتر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ایک دفتر سے دس افراد لا پتا ہیں۔ اقوام متحدہ کی امن فوج کے دس برازیلی رکن ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ مزید سات لا پتا ہیں۔
جنرل اسمبلی کو ہنگامی صورتحال بتاتے ہوئے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اہم سڑکیں اور شاہراہیں یا تو ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں یا عمارتوں کے ملبے اور گرے ہوئے درختوں کی وجہ سے بند ہیں، دارالحکومت کھنڈر بن چکا ہے، ایرپورٹ اگرچہ بچ گیا ہے لیکن کنٹرول ٹاور تباہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے جہازوں کی آمد و رفت میں خطرناک حد تک مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
یورپی یونین اور دیگر ممالک نے بھی اس موقع پر ہیٹی کی فوری امداد کی یقین دہانی کرائی۔
ہیٹی میں آنے والی یہ قدرتی آفت 2008 میں آنے والے ان سمندری طوفانوں سے بھی زیادہ شدید ہے جنہوں نے ہیٹی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔