فروغ پاتے پاک روس تعلقات، تجزیہ کاروں کی آرا

فائل

پاکستانی عسکری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ سے تعلقات میں سردمہری کے بعد اب پاکستان اپنے اقتصادی اور عسکری ترقی کے لئے امریکہ پر انحصار نہیں کر رہا

پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ صورتحال میں پاکستان اور روس کے درمیان حالیہ دنوں میں فوجی اور اقتصادی تعلقات میں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں۔

فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ان دنوں روس کے دورے پر ہیں، جبکہ انہی دنوں روسی سرمایہ کاروں کا ایک بڑا وفد پاکستان کے دورے پر ہے جو پاکستان میں متعدد منصوبوں میں سرمایہ کاری کا جائزہ لے رہا ہے۔ دوسری جانب اسے نے سی پیک کے منصوبوں میں بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کو ماسکو پہنچنے پر گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور انھوں نے گمنام سپاہوں کی یادگار پر پھول بھی چڑھائے۔ ’کریملن پیلس‘ میں روسی بری فوج کے سربراہ جنرل اولیگ سیلکوف سے ملاقات میں دوطرفہ فوجی تعاون بڑھانے پر بات چیت ہوئی۔

پاکستانی عسکری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ سے تعلقات میں سردمہری کے بعد اب پاکستان اپنے اقتصادی اور عسکری ترقی کے لئے امریکہ پر انحصار نہیں کر رہا۔

معروف تجزیہ نگار کرنل فاروق احمد کے بقول، ’’روس کے ساتھ پاکستان کے فوجی تعلقات دیرینہ ہیں۔ لیکن، باہمی بات چیت کے موجودہ سلسلسے کی بنیاد جنرل کیانی کے دور میں پڑی تھی۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں، امریکہ سے تعلقات میں سردمہری کے بعد پاکستان نے جوابی حکمت عملی اپنائی اور روس سے رابطہ بحال کیا۔ خود روس کی بھی یہی خواہش تھی بلکہ اس نے ’سی پیک‘ میں بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ موجودہ حالات میں عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن کے لئے پاکستان کے پاس یہ آپشن ہے جس کو وہ بروئے کار ل ارہا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر داخلہ، جنرل (ر) معین الدین حیدر بھی سمجھتے ہیں کہ روس کے ساتھ افغان جنگ کی تلخیاں کم ہوئی ہیں اور حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف فوجی بلکہ اقتصادی تعاون میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ روسی سرمایہ کاروں کے اعلیٰ سطحی وفد کا حالیہ دورہٴ پاکستان اس بات کا ثبوت ہے۔

بقول جنرل معین الدین حیدر ’’گزشتہ کئی برسوں سے روس سے ہمارے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ وہ سامان رسد لے جانے والے ایم آئی سیونٹین ہلی کاپٹر گزشتہ پندرہ بیس برسوں سے دے رہے ہیں اور اب اس بات کے اشارے بھی ملے ہیں کہ پاکستان اپنی ضرورت کے دیگر ہتھیار بھی روس سے حاصل کرسکتا ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’افغانستان جنگ کے حوالے سے جو روس سےتلخی تھی وہ بھی اب ختم ہو رہی ہے؛ دونوں میں یہ احساس بڑھا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کےلئے دونوں ممالک کو تعاون کرنا چاہئے اور سینٹ پیٹرزبرگ سے ایک بہت بڑا روسی وفد بھی پاکستان پہنچا ہے، جس کے ساتھ اقتصادی تعلقات کی بہتری کے لئے بات چیت ہو رہی ہے۔ اس لیے، روس سے نہ صرف تجارت بڑھ رہی ہے بلکہ عسکری تعاون بھی بڑھ رہا ہے‘‘۔

پاکستان میں قائم مقام روسی سفیر ویلادمیر برزیوک نے پیر کو فیصل آباد چیمبر آف کامرس سے خطاب میں بتایا تھا کہ صرف گزشتہ تین سال کے دوران پاکستان کو روسی برآمدات میں 96 فیصد، جبکہ روس کو پاکستان کی برآمدات میں 209 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ روسی سرمایہ کاروں کا وفد پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا جائزہ لے گا۔ کراچی سے لاہور کے لئے گیس پائپ لائن منصوبے پر پاک روس سمجھوتے پر دستخط پہلے ہی ہوچکے ہیں۔ روس ’سی پیک‘ منصوبوں میں بھی دلچسپی رکھتا ہے اور ان منصوبوں میں شمولیت کے لئے باضابطہ دعوت کا منتظر ہے۔