قطب شمالی اور بحر شمالی اوقیانوس کے درمیان واقع جزیرے پر مشتمل ڈنمارک کے خود مختار علاقے گرین لینڈ کی حکومت نے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ یہ علاقہ بکاؤ نہیں ہے۔
گرین لینڈ کی حکومت کی طرف سے یہ رد عمل ایسی اطلاعات کے بعد سامنے آیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے گرین لینڈ کو خریدنے سے متعلق اپنے وائٹ ہاؤس کے مشیروں سے مشاورت کی ہے۔
تاہم، یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکہ نے اس برف پوش وسیع و عریض علاقے کو خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ابراہم لنکن کے وزیر خارجہ ولیم ہنری سیوارڈ نے 1860 کی دہائی کے دوران اس وقت گرین لینڈ اور آئس لینڈ کو خریدنے کا مشورہ دیا تھا، جب امریکہ روس کے ساتھ الاسکا کو خریدنے کے سلسلے میں مذاکرات کر رہا تھا۔
امریکہ نے روس سے الاسکا 30 مارچ، 1867 کو 72 لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔ بعد میں یہ علاقہ امریکہ کے ساتھ متصل نہ ہونے کے باوجود امریکہ کی باقاعدہ ریاست بن گیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی 2017 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گرین لینڈ کے قدرتی وسائل کے باعث اس کی خرید ایک اچھی سرمایہ کاری ہو گی۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد صدر ہیری ٹرومین نے بھی 1946 میں گرین لینڈ کی جغرافیائی اور سیاسی اہمیت کے پیش نظر اسے خریدنے کے لیے 10 کروڑ ڈالر کی پیشکش کی تھی جسے ڈنمارک نے ٹھکرا دیا تھا۔
گرین لینڈ حکومت کی سرکاری ویب سائٹ پر جمعہ کے روز یہ بیان جاری کیا گیا، ’’امریکہ کے ساتھ ہمارا اچھا تعاون ہے اور ہم اسے اپنے ملک میں امریکی سرمایہ کاری کے اظہار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ گرین لینڈ یقیناً بیچنے کے لیے نہیں ہے۔ چونکہ یہ خبر غیر سرکاری ہے اس لیے گرین لینڈ کی حکومت کوئی مزید بیان دینا نہیں چاہتی۔‘‘
دریں اثنا، گرین لینڈ کی وزارت خارجہ نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے، ’’گرین لینڈ معدنی وسائل، صاف پانی، برف، سمندری خوراک، دوبارہ کارآمد بنائی جانے والی توانائی اور مہماتی سیاحت سے مالا مال ہے۔ گرین لینڈ کاروبار کے لیے کھلا ہے لیکن یہ برائے فروخت نہیں ہے۔‘‘