یونان کے وزیر اعظم نے حکومت کی طرف سے ملک میں لگی جنگل کی آگ کو بجھانے میں موثر اقدامات نہ کرنے پر قوم سے معذرت کی ہے۔
وزیر اعظم اتیاکوس متسوٹاکیس نے گرمی کی لہر اور طویل خشک سالی کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ان دو عوامل نے آگ بجھانے کا کام دشوار کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ملک میں آگ لگنے کے 500 سے زائد واقعات ہوئے۔
ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ان ہم وطن شہریوں کی تکلیف سے پوری طرح آگاہ ہیں جنہوں نے آگ میں اپنے گھروں اور جائیداد کو جلتے دیکھا۔
انہوں نے یونانی عوام کو یقین دلایا کہ اس معاملے پر ناکامیوں کی چھان بین کی جائے گی اور ذمہ داری کا تعین کیا جائے گا۔
یونان میں اس وقت ایویا نامی جزیرے میں بڑے پیمانے پر آگ بھڑک رہی ہے، جس نے عمارتوں اور جنگلات کو خاکستر کردیا ہے اور ہزاروں لوگوں کو جگہ خالی کرکے کہیں اور منتقل ہونے پر مجبور کیا ہے۔
SEE ALSO: گلوبل وارمنگ پر اقوام متحدہ کی رپورٹ: دنیا سرخ لکیر کے قریب پہنچ گئییہ بے قابو آتشزدگی ایک ہفتے سے جاری ہے جس کے بجھانے کی کوششوں میں ایتھنز کے ایک اہلکار اور رضاکار فائر فائٹرز کی جانیں جا چکی ہیں۔ اس وقت چھ سو سے زیادہ کا آگ بجھانے والا عملہ اس آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک نے اس صورت حال پر قابو پانے کے لیےآگ بجھانے والے جہاز اور ہیلی کاپٹرز یونان بھیجے ہیں۔
یورپی یونین نے ایک ہزار فائر فائٹرز اور نو جہاز یونان بھیجے ہیں جبکہ اس بڑی آگ سے متاثرہ ممالک ترکی اور اٹلی کے لیے بھی امداد بھیجی جا رہی ہے۔
خطے میں شدید گرمی کے باعث جنگلات میں لگنے والی آگ نے ترکی، اٹلی، اسپین، شمالی میسیڈونیا، البانیا، روس، الجیریا اور لبنان کو متاثر کیا ہے۔ یونان میں درجہ حرارت 45 ڈگری سنٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے۔
SEE ALSO: دنیا آب و ہوا میں تبدیلی کو اب ایک بڑی ہنگامی صورت حال سمجھتی ہےیاد رہے کہ پیر کو اقوام متحدہ کی آب و ہوا میں رونما ہونے والے تغیرات پر ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ آئندہ برسوں میں گلوبل وارمنگ یعنی دنیا میں درجہ حرارت بڑھنے کی صورت حال مزید بگڑے گی۔ رپورٹ میں سائنسدانوں نے پیش گوئی کی ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل کے حالات کے مقابلے میں اس صدی کے اگلے عشرے میں درجہ حرارت میں اضافہ ایک اعشاریہ پانچ کی سطح تک بڑھ جائے گا۔
یاد رہے کہ سن2015 میں دنیا کے ممالک نے پیرس کلائمیٹ معاہدے کے تحت عہد کیا تھا کہ وہ درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اقدامات کریں گے، لیکن انفرادی طور پر ممالک میں اس مقصد کے حصول کی جانب پیش رفت ممکن نہیں ہوئی۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں اس عہد کا اظہار کیا تھا کہ وہ 2030 تک ماحول میں گیسوں کےاخراج کو 2005 کے مقابلے میں نصف حد تک کم کریں گے۔ یورپی یونین نے بھی گیسوں کے اخراج کے لیے منصوبوں کا اعلان کیا ہے جسے وہ قانونی طور پر لازم قرار دینے کا ارادہ رکھتےہیں۔ البتہ، امریکہ نے ابھی یہ اقدام نہیں کیا۔
اس رہورٹ میں شامل بعض معلومات اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز خبر رساں اداروں سے لی گئی ہیں۔