ایک مطالعاتی جائزےکے مطابق یونان کے عوام چھ سالہ اقتصادی بحران کےنتیجے میں شدید مالی پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں جہاں نوجوان لڑکیاں بھوک سے مجبور ہوکر ایک سینڈوچ کی قیمت پرجسم فروشی کرنے پر تیار پر ہوگئی ہیں۔
یونان میں 17 ہزار جنسی کارکنوں کے اعدادوشمار پر مرتب کی جانے والی جائزہ رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ ان دنوں ملک کی جسم فروشی کی صنعت پر یونانی خواتین کا غلبہ ہے جہاں اس سے قبل مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والی خواتین زیادہ فعال ہوا کرتی تھیں۔
یونانی معاشرے کے دردناک معاشرتی مسائل سے پردہ اٹھاتے ہوئے ایتھنز کی 'پینٹیئن یونیورسٹی' سے منسلک عمرانیات کے پروفیسر گریگوری لیکسوس نے برطانوی اخبار ٹائمز کو بتایا کہ یونان میں کچھ لڑکیاں صرف ایک سینڈوچ یا چیز پائی کی قیمت پر عصمت فروشی کرنے پر تیار ہیں کیونکہ وہ بھوکی ہوتی ہیں جبکہ ان میں سے کچھ دوسری لڑکیاں ٹیکسوں یا بلوں کی ادائیگی کرنے کے لیے یا پھر ضروری ادویات کی خریداری کے لیےجسم فروشی کا کاروبار میں آتی ہیں۔
پروفیسر لیکسوس جن کی قیادت میں مطالعہ مکمل کیا گیا ہے ایک بیان میں کہا کہ جب یونان میں اقتصادی بحران شروع ہوا تو اس کاروبار سے وابستہ لڑکیاں کا معاوضہ 50 یورو یا 53 ڈالر ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ معاوضہ اتنا گر چکا ہے کہ وہ 2 یورو یا تقریبا ڈھائی ڈالر پرعصمت فروشی کرنے پر تیار ہیں۔
مطالعے میں مایوس کن صورتحال سے دوچار 400 لڑکیوں کا احاطہ کیا گیا ہےجو صرف ایک وقت کے کھانے کی خاطر ایسا کرنے پر مجبور تھیں لیکن محقق لیکسوس کا کہنا ہے کہ ملک میں جنسی کارکنوں کی ہزاروں کی تعداد کے مقابلے میں یہ برائے نام ہیں ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
پروفیسر لیکسوس نے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یونان کے مالیاتی بحران سے قبل اس طرح کی صورتحال معاشرے میں رجحان کے طور پر موجود نہیں تھی تاہم اب جسم فروشی کا 80 فیصد کاروبار یونانی خواتین کی دسترس میں دکھائی دیتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ مطالعے سے انکشاف ہوا کہ ملک میں مایوس نوجوان خواتین جو سستا ترین سیکس فراہم کرتی ہیں ان کی تعداد میں مسلسل اور مستحکم رفتار سے اضافہ ہورہا ہے اور ایسا نظر نہیں آتا ہے کہ ان کی تعداد میں کمی آسکتی ہے۔
نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس کاروبار میں نئی شامل ہونے والی یونانی لڑکیوں کی عمریں 17 سے 20 برس کے درمیان ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں عصمت فرشی کے کاروبار میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے اور ایک ایسے وقت میں یونان یورپ کا سستا ترین جسم فروشی کا مرکز بن چکا ہے۔
پروفیسر لیکسوس کے مطابق اس کاروبار میں لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ان کی ضروریات پر منحصر ہے، اس وقت یونان کی سڑکوں پر 18,500 سے زائد لڑکیاں اس کاروبار سے وابستہ ہیں جبکہ مجموعی طور پر جنسی کارکنوں کی تعداد چونکا دینے والی ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت منظر عام پر آئی ہے جب ایک ماہ قبل یونان میں ایک بے روزگار ادھیڑ عمر عورت کو 33 سال قید اور ایک لاکھ یورو کی سزا سنائی گئی ہے جس نے اپنی 12 سالہ بیٹی کو ایک پادری اور ریٹائرڈ شخص کے ساتھ جسم فروشی کرنے پر مجبور کیا تھا جبکہ یونان کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس واقعہ پر غم وغصے کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور میڈیا نے خاتون کو 'وحشی ماں ' کا نام دیا ہے ۔
پروفیسر گریگوری لیکسوس نے کہا کہ ان کا مطالعہ یونان میں اقتصادی بحران کے نتیجے میں رونما ہونے والے معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتا ہے جبکہ انھوں نے ریاستی حکام سے اس ضمن میں لاتعلق رہنے کے بجائے اقدامات کرنے پر زور دیا ہے ۔