پاکستان میں وفاقی کابینہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس کی منظوری دے دی ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت اب نیب صرف 50 کروڑ روپے سے زائد کی بدعنوانی سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کر سکے گا۔
نئے آرڈیننس کے تحت نیب کسی بھی مشتبہ شخص کو ریمانڈ پر 90 روز کے بجائے صرف 14 روز تک رکھ سکے گا۔
صدر عارف علوی نے اس آرڈیننس پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد یہ قانون بن کر فوری طور پر نافذ العمل ہو گیا ہے۔
وفاقی کابینہ نے نیب ترمیمی آرڈیننس منظوری کے بعد صدر کو ارسال کیا تھا جب کہ وفاقی کابینہ نے سرکولیشن سمری کے ذریعے آرڈیننس کی منظوری دی تھی۔
آرڈیننس کے مطابق محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کے خلاف نیب کارروائی نہیں کرے گا۔ ایسے ملازمین کے خلاف کارروائی ہو گی جن کا نقائص سے فائدہ اٹھانے کے شواہد موجود ہوں جب کہ سرکاری ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم نامے کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا۔
آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازم کے اثاثوں میں بے جا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی کی جا سکے گی جب کہ تین ماہ میں نیب کی تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حق دار ہوگا۔
علاوہ ازیں نیب 50 کروڑ سے زائد کی کرپشن اور اسکینڈل پر کارروائی کرسکے گا۔
آرڈیننس میں کی جانے والی ترامیم کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی میں چیئرمین نیب کا کردار ختم کر دیا گیا۔
نیب انکوائری اور تحقیقات کے مراحل میں عوامی سطح پر کوئی بیان نہیں دے سکتا۔ نیب اب 90 روز تک کسی مشتبہ شخص کو تحویل میں نہیں لے سکتا کیونکہ اس مدت کو کم کرکے 14 روز کردیا گیا ہے۔ ماضی میں مشتبہ شخص پر پڑنے والا ثبوتوں کا بوجھ اب پراسیکیوشن پر ڈال دیا گیا ہے۔
آرڈیننس میں کی جانے والی ایک ترمیم کے ذریعے احتساب قانون میں انکوائری کی تکمیل کے لیے 60 ماہ کے عرصے کی مہلت شامل کی گئی ہے جبکہ ایک اور شق کے ذریعے نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ کارروائی مکمل ہونے کے بعد قومی احتساب بیورو کسی شکایت پر انکوائری یا تحقیقات کا دوبارہ آغاز نہیں کر سکتا۔
بیوروکریٹس کی پراسیکیوشن کے لیے چیئرمین نیب، کابینہ اور اسٹیبلشمنٹ سیکریٹریز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین اور سیکیورٹز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور ڈویژن برائے قانون و انصاف کے نمائندے پر مشتمل 6 رکنی اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ ان کی منظوری کے بغیر نیب کسی سرکاری ملازم کے خلاف تحقیقات کا آغاز نہیں کر سکتا، نہ ہی انہیں گرفتار کر سکتا ہے۔
نئے آرڈیننس کے تحت نیب کو اسکروٹنی کمیٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی پبلک آفس ہولڈر کی جائیداد ضبط کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
اس وقت اس قانون کے تحت جو کیسز نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے وہ متعلقہ حکام یا محکموں کو تحقیقات منتقل کیے جائیں گے۔
اس کے ساتھ ہی جاری ٹرائلز کو متعلقہ احتساب عدالتوں سے ٹیکس، لیویز اور محصولات کے متعلقہ قوانین کے تحت نمٹانے والی کرمنل کورٹس میں منتقل کیا جائے گا۔
حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا شدید ردِعمل
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اپنی حکومت کے ہر منصوبے کی انکوائری روکنے کے لیے نیب آرڈیننس لا رہے ہیں۔
ان کے بقول سلیکٹڈ حکومت کا نیب آرڈیننس اپنی کرپٹ حکومت اور دوستوں کو این آر او دینے کی سازش ہے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ عمران خان پشاور میٹرو بس، مالم جبہ ریزورٹ اور ہیلی کاپٹر استعمال کے مقدمات میں نیب تفتیش رکوانے کے لیے آرڈیننس لا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاور میٹرو بس کے ایک کھرب 25 ارب روپے کے گڑھے این آر او پلس سے نہیں چھپائے جا سکتے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ دوسروں سے 40 سال کا حساب لیکن علیمہ باجی، فیصل واوڈا اور جہانگیر ترین کو این آر او دیا گیا۔ اب اپنی حکومت اور دوستوں کی چوری چھپانے کے لیے نیب گٹھ جوڑ کے ذریعے این آر او پلس لایا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق اپنی کرپشن کو نیب آرڈیننس کے ذریعے چھپانا نیب نیازی گٹھ جوڑ کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر سعید غنی کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے نیب قوانین میں ترمیم کے لیے آرڈیننس لانے کا مقصد اپنے چند دوستوں کو بچانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب ایک کالا قانون ہے۔اس وجہ سے لوگوں نے جیلیں کاٹیں اور خودکشیاں کیں۔
پی پی پی کے رہنما نے مزید کہا کہ نیب کے قانون میں ترمیم سے سرکاری افسران، کاروباری افراد، علیمہ باجی جیسے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور فوج کو نیب پہلے ہی نہیں پوچھتی تھی اب صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) رہ گئے ہیں۔ یہ احتساب نہیں بلکہ احتساب کے نام پر انتقام ہے۔
'نیب تو پہلے ہی کارکردگی نہیں دکھا رہا'
نیب کے سابق پراسیکیوٹر راجہ عامر عباس ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ نیب پہلے ہی کارکردگی نہیں دکھا رہا۔ نہ ریکوری ہو رہی تھی اور نہ ہی کوئی کارکردگی تھی۔
ان کے بقول اگر بدعنوانی روکنی ہے تو اس آرڈیننس کے ذریعے اب ایف آئی اے کو زیادہ رول دیا جا رہا ہے۔
سابق پراسیکیوٹر راجہ عامر عباس ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب کو فارغ نہیں کیا جا رہا یہ آرڈیننس صرف چھ ماہ کے لیے ہے۔
ان کے مطابق چھ ماہ بعد اسے پارلیمنٹ میں جانا ہے اور میرا نہیں خیال کہ حکومت اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ سے منظور نہیں کروا سکتی ہے۔ چھ ماہ بعد یہ ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی مداخلت کے حوالے سے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ ایف آئی اے کے پاس ایسے مقدمات حل کرنے کی صلاحیت نیب سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کے اختیارات کم نہیں کیے گئے۔ لہذا آئندہ چند دن میں ایف آئی اے کا رول زیادہ نظر آ رہا ہے۔
تجزیہ کار پروفیسر شاہد اقبال کامران کہتے ہیں کہ اس آرڈیننس کے ذریعے وزیر اعظم نے بیوروکریٹس اور کاروباری افراد کو تحفظ دیا ہے۔
ان کے بقول اس آرڈیننس سے نظر آرہا ہے کہ حکومت نیب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ نیب نے آج تک جتنی ریکوری کی وہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے جبکہ زیادہ تر سیاست دان ہی نشانہ بنے اور کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔
پروفیسر شاہد اقبال کامران کے بقول تاجروں اور بیورو کریٹس پر اس ادارے کے ذریعے دباؤ ڈال کر انہیں کام سے روک دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت جو کرپشن کے خاتمہ کا نعرہ لگا کر آئی تھی اب 50 کروڑ سے کم کی کرپشن پر کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتی۔
پروفیسر شاہد اقبال کامران کا کہنا تھا کہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت خود اپنے منصوبوں اور حکمت عملی کے حوالے سے کلئیر نہیں ہے۔انہیں اب بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔