|
لاہور -- پاکستان اور بھارت اِن دِنوں شدید فضائی آلودگی (اسموگ) کا شکار ہیں۔ ایسے میں پاکستانی پنجاب کی وزیرِ اعلٰی مریم نواز نے ایک بار پر بھارت کے ساتھ کلائمیٹ ڈپلومیسی پر زور دیا ہے۔
وائس آف امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے مبصرین سے بات کی ہے کہ کیا واقعی اسموگ ڈپلومیسی ہو سکتی ہے اور اگر نہیں تو رکاوٹ کیا ہے؟
لیکن اس سے پہلے بات کرتے ہیں لاہور میں لگائے جانے والے 'گرین لاک ڈاؤن' پر جس کے تحت پنجاب کی حکومت نے لاہور کی ڈیوس روڈ، ایبٹ روڈ، ایمپرس روڈ اور کوئین میری روڈ پر یہاں کمرشل جنریٹرز چلانے، تعمیراتی کام، چنگ چی رکشے اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی لگا دی ہے۔
گرین لاک ڈاؤن نوٹی فکیشن کے مطابق متاثرہ علاقوں میں چار نومبر بروز پیر سے سرکاری اور نجی دفاتر میں 50 فی صد حاضری رکھی جائے گی اور 50 فی صد لوگ گھر سے کام کریں گے جب کہ کوئلے اور لکڑی کو ایندھن کے لیے استعمال کرنے پر پابندی ہو گی۔
آئیے اب واپس آتے ہیں 'کلائمیٹ ڈپلومیسی' کی طرف جس کی کئی روز سے بازگشت ہے۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات اس کی راہ میں رکاوٹ سمجھے جا رہے ہیں۔
'سوچ رہی ہوں بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلٰی کو خط لکھوں'
پنجاب کی وزیرِ اعلٰی نے منگل کو دیوالی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر بھارت کے ساتھ اس ماحولیاتی ڈپلومیسی کی بات کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سیاست کے بجائے انسانی بنیادوں پر سوچنا ہو گا۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ وہ سوچ رہی ہیں کہ اس حوالے سے بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلٰی کو خط لکھیں۔
ماہرینِ ماحولیات کے مطابق بھارت اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں فصلیں جلائے جانے اور ہوا کے رُخ کے باعث لاہور میں اسموگ بڑھ جاتی ہے۔
خیال رہے کہ مریم نواز اِس سے قبل بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے قبل اسموگ ڈپلومیسی پر بات کر چکی ہیں۔ تاہم دونوں اطراف کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس کے لیے دونوں ملکوں کے حکام کو لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔
'ایک مسئلے پر جزوی ڈپلومیسی مشکل ہے'
بھارت کے سینئر صحافی رویندر سنگھ روبن کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی ایک مسئلے پر جزوی ڈپلومیسی ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات محدود ہیں اور مستقل ہائی کمشنرز بھی تعینات نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رویندر سنگھ روبن کہتے ہیں کہ اسموگ تو چند روز کا معاملہ ہے جسے ڈپلومیسی سے جوڑ کر بات کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اُن کے بقول اسموگ کے علاوہ بھی بہت سے ایسے حل طلب مسائل ہیں جن کا دونوں ملکوں کو سامنا ہے۔
اُن کے بقول اسموگ ڈپلومیسی کے لیے مریم نواز کو پاکستانی وزارتِ خارجہ سے رُجوع کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ معاملہ صرف ریاست کی سطح پر ہی اُٹھایا جا سکتا ہے۔
'کچھ معاملات پر دونوں ملکوں میں بات چیت جاری رہتی ہے'
پاکستان کے سابق سفارت کار عاقل ندیم سمجھتے ہیں کہ اِس وقت دونوں ممالک کے پنجاب اسموگ سے شدید متاثر ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات کے باوجود کچھ معاملات پر بات چیت جاری رہتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے سمیت کچھ دیگر معاملات پر بھی دونوں ملک رابطے میں رہتے ہیں اور ایسے میں بھارتی وزیرِ خارجہ کا ایس سی او سمٹ میں پاکستان آنا بھی اُمید کی کرن ہے۔
بھارتی صحافی روہت شرما کے مطابق گزشتہ 10 برس سے دونوں ممالک کو اسموگ کا سامنا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بھارتی حدود میں اسموگ کا معاملہ بھارت کی سپریم کورٹ تک جا چکا ہے۔ لیکن حکومتوں نے اِس کا کوئی حل نہیں نکالا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر دونوں ملکوں کی حکومتیں چاہتیں تو اسموگ کے خاتمے کے لیے مل کر کوششیں کر سکتی تھیں۔
یاد رہے کہ 2017 میں اُس وقت کے پاکستانی پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف نے اسموگ کے خاتمے کے لیے بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ لیکن بات آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔
بھارتی صحافی رویندر سنگھ اور عاقل ندیم اس بات پر متفق ہیں کہ اسموگ ڈپلومیسی دونوں ملکوں کو قریب لانے میں مددگار ہو سکتی ہے۔
رویندر سنگھ روبن کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات محدود ہونے کے باوجود کرتار پور راہداری کا افتتاح ہوا۔ لہذٰا اسموگ جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بھی دونوں مل کر کام کر سکتے ہیں۔
بھارتی صحافی روہت شرما کہتے ہیں کہ اگر دونوں ملکوں کو اس معاملے میں کچھ کرنا ہے تو جلدی کرنا ہو گا کیوں کہ اکتوبر کا مہینہ گزر چکا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مریم نواز کو اگر بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلٰی کو خط لکھنا ہے تو سوچنے کے بجائے اس پر عمل کریں۔