کچھ عرصہ قبل مقبولیت حاصل کرنے والی ایک سائنس فکشن انگریزی فلم اوا تار نے صرف لاکھوں شائقین کو تجسس اور دلچسپی سے بھرپور تفریحی ہی فراہم نہیں کی بلکہ نئی ایجادات کے لیے سائنس دانوں کو نئی راہیں بھی دکھائیں۔ فلم کے ایک منظر میں روشنی دینے والے پودے دکھائے گئے تھے۔جس سے تائیوان کے ایک ریسرچ سینٹر کے سائنس دانوں کوجدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ایسے پودے اگانے کا خیال آیا جو نہ صرف عمارتوں کی اندرونی آرائش و زبیائش میں اضافہ کریں بلکہ ان سے عمارتوں کو روشن رکھنے کا کام بھی لیا جائے سکے۔ یعنی پھول، ہریالی اور روشنی سب ایک ساتھ۔
ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں سائنس دان برقی قوت پیدا کرنے کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایک طرف جہاںسورج کی روشنی اور ہوا کی قوت سے بجلی پیدا کرنے کے بڑے بڑے پلانٹ لگائے جارہے ہیں، وہاں تائیوان کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم روشنی دینے والے پودوں کو قمقوں اور ٹیوب لائٹس کے ایک ایسے متبادل کے طورپر دیکھ رہی ہے جو بجلی کی ضرورت سے بے نیاز ہوں گے۔
تائیوان کے دارالحکومت تائی پے میں واقع ریسرچ سینٹر فار اپلائیڈ سائنسز کے سربراہ ین سن سو کا کہنا ہے کہ ان کے ماہرین کی ٹیم نے اپنے تجربوں کے لیے ایک آبی پودے Bacopa caroliniana کا انتخاب کیا۔
یہ ایک جھاڑی نما پودا ہے جو پانی کی سطح کے نیچے تیرتارہتا ہے۔ اس کے پتے گداز اور رسیلے ہوتے ہیں اور اگر انہیں مسلا جائے تو وہ لیموں جیسی خوشبو دیتے ہیں۔پودے پر نیلے رنگ کے خوش نما پھول لگتے ہیں جن کی پانچ پنکھڑیاں ہوتی ہیں۔ اپنی خوبصورتی کی بنا پر اس پودے کو لوگ عموماً اپنے گھروں کے اندر چھوٹے ماہی خانوں میں اگاتے ہیں، جس میں لگی روشنیاں اس پودے کو مزید خوشنما بنا دیتی ہیں۔
ین سن سو کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم نے پودے کو ایک ایسے محلول میں ڈبویا جن میں سونے کےنینو ذرات موجود تھے جو ایک یا دو روز میں پودے کے خلیوں میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد پودے کو الٹرا وائلٹ روشنی میں رکھا گیا جس نے پودے کے خلیوں میں موجود نینو ذرات میں الیکٹران پیدا کردیے، جس سے پودے سےنیلے رنگ کی بنفشی روشنی خارج ہونے لگی۔ بعد میں پودے کے اندر آنے والی کیمیائی تبدیلیوں کے باعث اس کے پتے سرخ رنگ کی روشنی خارج کرنے لگے۔
ریسرچ سینٹر کے سربراہ ین سن سو کا کہنا ہے کہ نینو ذرات دو ہفتوں سے لے کر دو مہینوں تک پتوں میں موجود رہتے ہیں اور اس عرصے میں پودا مسلسل روشنی خارج کرتا رہتاہے۔
ٹیم کے ایک اور سائنس دان وی من زانگ ، جن کا تعلق تائیوان کی نیشنل چنگ کنگ یونیورسٹی کے شعبہ طبعیات سے ہے، کہتے ہیں کہ نینو ذرات کی ساخت روشنی میں کے اخراج میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اور انہیں مخصوص شکل دے کر زیادہ طاقت ور روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ٹوکیو میں واقع الیکٹرو کمیونیکشنز یونیورسٹی کے ایک بائیو آرگینک سائنس دان ہروکی نیوا کہتے ہیں کہ جاندار اشیا پر نینو ذرات کے تجربات آج کے دور کا سب سے پسندیدہ موضوع ہے اور مستقبل میں یہ شعبہ کئی حیران کن ایجادات سامنے لاسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس شعبے میں استعمال ہونے والی اشیا مہنگی ہیں۔ اگر ان کے سستے متبادل ڈھونڈ لیے جائیں تو پودوں اور دوسری مختلف اشکال میں نئی طرح کے جاندار ایل ای ڈی مارکیٹ میں عام دستیاب ہونے لگیں گے جنہیں آرائش و زبیائش کے علاوہ روشنی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکے گا۔