پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ پائلٹوں کے جعلی لائسنز کے تنازع اور اُن کے حالیہ بیان کے سبب پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی ساکھ متاثر ہونے یا بحرانی صورتِ حال پیدا ہونے کی باتیں درست نہیں ہیں۔
اُن کے بقول کرونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں فضائی آپریشن پہلے سے ہی معطل ہیں۔ لہذا پاکستان کو یہ موقع ملا ہے کہ پی آئی اے میں پائی جانے والی خامیوں کو درست کیا جا سکے۔
راولپنڈی میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ پائلٹس کے جعلی لائسنسوں کے حوالے سے بیان پر بعض حلقوں کی جانب سے بلا جواز تنقید کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی سانحے سے پہلے ہونے والے طیاروں کے حادثات سے قوم کو بے خبر رکھا جاتا تھا۔ ہم قوم کو اس بات سے باخبر رکھنا چاہتے ہیں کہ ماضی میں کیا کچھ غلط تھا اور کیا کچھ ہم ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ 22 مئی کو پی آئی اے کا طیارہ کراچی ایئر پورٹ کے قریب حادثے کا شکار ہوا تھا۔ اس حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وزیرِ ہوا بازی غلام سرور خان نے پائلٹوں کے مشکوک لائسنسوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔
اُن کا کہا تھا کہ پاکستان کے 860 پائلٹوں میں سے 260 کے لائسنس مشکوک ہیں۔
'ہر دوسرے سال فضائی حادثہ کوئی تو وجہ ہے'
غلام سرور خان کہتے ہیں کہ قومی ایئر لائن میں غیر قانونی بھرتیوں پر پہلے سے کارروائی جاری تھی اور نہ صرف پائلٹوں بلکہ دیگر تکنیکی عملے کی ڈگریوں اور تربیتی سرٹیفکیٹس کی جانچ پڑتال بھی کی جا رہی تھی۔ جس میں تضادات سامنے آئے ہیں۔
ان کے بقول تحقیقات کے نتیجے میں بعض پائلٹوں اور عملے کو نوکری سے برخاست بھی کیا جا چکا ہے جسے سپریم کورٹ نے بھی سراہا ہے۔
یورپین یونین کی ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) کی جانب سے پی آئی اے کا فضائی آپریشن کا اجازت نامہ معطل کیے جانے پر غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ یہ 'سیفٹی مینجمنٹ سسٹم' کے ایک جاری عمل کا نتیجہ تھا۔ جو کہ 2014 سے چل رہا ہے اور اس سے قبل بھی قومی ایئر لائن کا یورپی ممالک کا فضائی آپریشن معطل ہوا ہے۔
غلام سرور خان کی جانب سے پاکستان میں پائلٹس کے لائسنس مشکوک قرار دینے کے بعد ایاسا نے پاکستان کے 'سیفٹی مینجمنٹ سسٹم' اور 'ایوی ایشن نظام' پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے پی آئی اے کے فضائی آپریشن پر چھ ماہ کی پابندی عائد کی تھی۔
وزیرِ ہوا بازی کہتے ہیں کہ کراچی میں طیارہ حادثے کے بعد قومی ایئر لائن نے تمام جہازوں کی انٹرنیشنل انجینئرز سے سرٹیفکیشن حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پائلٹس سمیت تمام تکنیکی عملے کی اسناد، تربیت اور ذہنی صحت کو جانچنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جانچ پڑتال کا یہ عمل قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی اداروں سے کرایا جا رہا ہے تاکہ قومی ایئر لائن پر دنیا کا اعتماد بحال ہو سکے اور پی آئی اے بین الاقوامی ایئر لائن کے طور پر سامنے آئے۔
'پی آئی اے کی نجکاری نہیں تنظیم نو'
وفاقی وزیر غلام سرور خان کہتے ہیں کہ حکومت پی آئی اے کی نجکاری نہیں بلکہ تنظیم نو کرنا چاہتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کے جہازوں میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 30 جہازوں پر مشتمل پی آئی اے فلیٹ کو سال 2023 تک 45 جہازوں تک لے جایا جا رہا ہے جو کہ 33 فی صد اضافہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے قومی فضائی ادارہ ہے۔ اس کی نجکاری نہیں بلکہ بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔
غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ 2018 میں پی آئی اے کا خسارہ چار ارب روپے ماہانہ تھا جو کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں کم ہو کر ایک ارب روپے تک آگیا تھا۔ تاہم کرونا وائرس کے باعث فضائی آپریشن کی معطلی کے سبب یہ خسارہ بڑھ کر چھ ارب روپے ماہانہ تک پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی جو منافع میں تھی۔ وہ بھی رواں سال جنوری سے اب تک 60 ارب روپے تک خسارے کا شکار ہو چکی ہے۔
وزیر ہوا بازی کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر کی ہوا بازی اور ایوی ایشن کی صنعت بحران کا شکار ہے اور بڑی بڑی ایئر لائنز اپنے پائلٹس کو برخاست کر رہی ہیں۔ ان کے بقول پی آئی اے نے کسی کو خسارے کی بنا پر نوکری سے فارغ نہیں کیا ہے۔
وفاقی وزیر ہوا بازی کہتے ہیں کہ حکومت نیو یارک میں پی آئی اے کی ملکیت 'روز ویلٹ ہوٹل' کو ٹھیکے (لیز) یا مشترکہ منصوبے (جوائنٹ وینچر) کے طور پر چلانے پر کام کر رہی ہے اور اس حوالے سے نجکاری کی خبروں میں صداقت نہیں ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی نگران یا خدمات کا ادارہ
وفاقی وزیر ہوا بازی کہتے ہیں کہ اصلاحات حکومت کا ترجیحی ایجنڈا ہیں۔ جس کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی کے دو مختف شعبوں کو الگ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اتھارٹی کے خدمات کے شعبے کے لیے الگ ڈی جی لگایا جائے گا جب کہ ایوی ایشن انڈسٹری کے ریگولیٹر کے طور پر مختص کیے گئے شعبے کا علیحدہ نگران ہو گا۔
ان کے بقول اس وقت ملک کے تمام ہوائی اڈے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے زیرِ انتظام ہیں جب کہ جہازوں کی لیز، پائلٹس کے لائسنس، ایئر لائنز کی رجسٹریشن اور ریگولیشن بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اصلاحات اور غیر قانونی بھرتیوں کی جانچ پڑتال سول ایوی ایشن اتھارٹی میں بھی کی جارہی ہے۔ جس کے بعد 'ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس' اور 'میٹ ڈپارٹمنٹ' کی چھان بین ہو گی۔
غلام سرور خان نے بتایا کہ پی آئی اے کی امریکہ کے لیے براہِ راست پرواز پر خاصی پیش رفت ہو چکی ہے اور اگر کرونا وائرس کی صورتِ حال پیدا نہ ہوتی تو یہ پرواز اب تک چل رہی ہوتی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ کرونا وائرس کے باعث پیدا شدہ صورتِ حال کے خاتمے پر نیویارک کے لیے پی آئی اے کی براہِ راست پرواز بحال ہوجائے گی۔
عمران خان مائنس نہیں، پلس ہورہے ہیں
تحریک انصاف کے مرکزی رہنما غلام سرور خان کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کے مائنس ہونے کی افواہیں حقیقت سے بہت دور ہیں۔ کیوں کہ عمران خان مائنس ہونے جا رہے ہیں نہ ہی تحریک انصاف۔
انہوں نے کہا کہ 2002 کے بعد سے پاکستان میں اسمبلیاں اور حکومت اپنی مدت مکمل کر رہی ہیں اور ملک میں پرامن انتقالِ اقتدار کی یہ روایت قائم ہوئی ہے جس کا تسلسل جاری رہے گا۔
غلام سرور خان حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما ہیں جو 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی دو جب کہ صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے بیک وقت کامیاب ہوئے تھے۔