برلن: مشتبہ حملہ آور کی یورپ بھر میں تلاش

یورپ بھر میں حکام برلن کی کرسمس مارکیٹ میں ہونے والےٹرک حملے میں مبینہ طور پر ملوث مشتبہ شخص کی تلاش جمعرات کو بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جرمن حکام نے مشتبہ حملہ آور کی شناخت تیونس کے شہری کے طور پر کی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس شخص کو ایک ماہ قبل ملک بدر کر دیا جانا چاہیئے تھا۔

حکام نے بدھ کو کہا کہ 24 سالہ انس عامری جولائی 2015 میں یورپ آیا تھا اور خفیہ معلومات کی بنا پر وہ رواں سال چھ ماہ تک سرکاری اداروں کی نگرانی میں رہا، اس کے بارے میں یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ کسی ممکنہ حملے کے لیے ہتھیار خرید سکتا ہے۔

تاہم اس سے متعلق چھان بین ستمبر میں ختم ہو گئی تھی۔

جب کہ آنس کی طرف سے دی جانے والی پناہ کی درخواست کو چھ ماہ قبل مسترد کر دیا گیا تھا، لیکن اسے واپس تیونس نا بھیجا گیا کیونکہ اس کی دستاویزات میں کوئی مسئلہ تھا۔

ان انکشافات کی وجہ سے جرمنی میں یہ سوالات ایک بار پھر اٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ ملک ہزاروں کی تعداد میں ان افراد کی چھان بین کیسا کرتا ہے جو پناہ کی تلاش میں ملک میں داخل ہوئے۔

اس حملے کے ایک دن کے بعد جرمنی کی چانسلر اینگلا مرکل نے کہا کہ یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کوئی پناہ کا متلاشی اس کا ذمہ دار ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’یہ ان بہت سے لوگوں کے لیے نا خوشگوار امر ہے جو ان پناہ گزینوں کی ہر روز مدد کرتے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ ایک ٹرک حملے میں برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ میں 12 افراد کو کچل کر ہلاک اور درجنوں کو زخمی کر دیا گیا تھا۔

جرمن حکام نے بدھ کو رات گئے مشتبہ شخض کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے گئے۔

خبر رساں ادارے رائیٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی پراسیکیورٹرز نے مشتہ حملہ آور کی گرفتاری میں مدد سے متعلق اطلاع دینے والے کے لیے ایک لاکھ یورو کا انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔

ٹرک حملے میں مبینہ طور پر ملوث تیونس کے شخص کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ اٹلی میں غیر قانونی طور پر مقیم رہا اور اس نے وہاں کچھ وقت جیل میں بھی گزارا اور پھر سات سال پہلے اس نے اٹلی چھوڑ دیا۔

رائیٹرز کے مطابق تیونس کے ریڈیو موزائیک نے مشتبہ شخص کے والد اور سکیورٹی ذرائع کے حوالے کہا ہے کہ اس کا نام انس عامری ہے اور وہ تیونس کے ایک دیہی علاقے کا رہنے والا ہے، وہ ایک اسکول کو آگ لگانے کے الزام پر چار سال تک اٹلی کی جیل میں رہ چکا ہے۔ اس کے والد نے ریڈیو کو بتایا کہ اس کا بیٹا ایک سال پہلے جرمنی چلا گیا تھا۔

جرمنی کے شہر برلن میں کرسمس مارکیٹ پر ایک بڑے ٹرک کے ذریعے حملے میں ملوث افراد کی تلاش جاری ہے اور جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ اس میں ایک سے زائد افراد شامل ہو سکتے ہیں۔

شدت پسند تنظیم ’داعش‘ نے برلن میں کیے گئے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، اس ٹرک حملے میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔

جرمن میڈیا کے مطابق حملے میں استعمال ہونے والے ٹرک سے ملنے والی دستاویزات کی بنیاد پر پولیس تیونس کے شہری کو تلاش کر رہی ہے۔

برلن پولیس کا کہنا ہے کہ اُنھیں ہیلپ لائن کے ذریعے حملے سے متعلق 500 معلومات پر مشتمل ’لیڈز‘ ملی ہیں۔

داعش کی طرف سے یہ دعویٰ منگل کو اس شدت پسند تنظیم سے وابستہ عماق نیوز ایجنسی کی ویب سائیٹ کے ذریعے جاری کیا گیا، لیکن آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

اُدھر جرمن پولیس نے برلن حملے کے بعد پیر کی شام جس واحد مشتبہ شخص کو تحویل میں لیا تھا، اُسے رہا کر دیا گیا۔

چیف فیڈرل پراسیکیوٹر آفس کے مطابق مشتبہ پاکستانی شہری کو اس لیے رہا کر دیا گیا ہے کیوں کہ تفتیش کاروں کو اُس کے خلاف کافی شواہد نہیں ملے۔

جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایک پاکستانی شخص کو گرفتار کیا گیا تھا، جس کا نام جرمن میڈیا میں نوید بتایا گیا اور وہ گزشتہ سال دسمبر میں جرمنی پہنچا تھا۔

تاہم نوید نے اس مشتبہ حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔

جرمن چانسلر اینگلا مرکل نے منگل کو اس مقام کا دورہ کیا جہاں ٹرک حملہ کیا گیا، اُنھوں نے اس مقام پر سفید پھول رکھے اور کہا کہ اس حملے نے اُنھیں ہلا کر رکھا دیا اور وہ بہت ’’افسردہ‘‘ ہیں۔

چانسلر مرکل نے کہا کہ وہ ’’12 افراد جو کل تک ہمارے ساتھ تھے اور کرسمس کی تیاری کر رہے تھے، چھٹیوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اب ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔‘‘

عینی شاہدین کے مطابق معروف کرسمس مارکیٹ سیاحوں اور مقامی لوگوں سے بھری ہوئی تھی کہ 60 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار سے چلنے والا ٹرک اُن پر چڑھا دیا گیا، ٹرک پر بھاری سامان لدھا ہوا تھا۔

واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں فرانس کے علاقے نیس میں سیاحوں پر ایک تیز رفتار ٹرک سے حملہ کیا گیا جس میں 86 افراد ہلاک اور لگ بھگ 400 زخمی ہو گئے تھے۔

جرمن حکومت نے گزشتہ سال شام سمیت مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک سے آنے والے لگ بھگ آٹھ لاکھ 90 ہزار افراد کو پناہ دی تھی، جس پر جرمنی میں بعض حلقوں کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی کیا گیا تھا اور یہ معاملہ چانسلر مرکل کے لیے مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔