جرمن وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ایڈورڈ اسنوڈن کی طرف سے کسی بھی قسم کی معلومات جرمنی کے لیے بیش قیمت ہوگی
جرمنی نے کہا ہے کہ وہ امریکی خفیہ معلومات کے کچھ حصے منظر عام پر لانے والے ایڈورڈ اسنوڈن سے بات چیت کرنا چاہے گا تاکہ چانسلر مرخیل کے موبائل فون کی مبینہ نگرانی سمیت امریکہ کے جاسوسی کے پروگرام کے بارے میں آگاہی حاصل کی جا سکے۔
جرمنی کے وزیر داخلہ ہنس پیٹر فریڈرک نے کہا کہ روس میں پناہ لیے امریکی مفرور اسنوڈن سے کسی بھی قسم کی معلومات کا خیر مقدم کیا جائے گا اگرچہ یہ بات واضح نہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہوگا۔
برلن کے اعلیٰ سیکورٹی عہدیدار کی طرف سے یہ بیان ماسکو میں جرمنی کے ایک قانون ساز کی اسنوڈن سے ملاقات کے بعد سامنے آیا۔
قانون ساز ہنس کرسچن اسٹروبلے نے اپنی ملاقات کے بعد کہا کہ امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے سابق کنٹریکٹ ملازم نے انہیں جرمن حکومت کے نام ایک خط دیا ہے جس میں اسنوڈن نے امریکہ کو ہدف تنقید بنایا۔
امریکی اور جرمن سرکردہ عہدیداروں نے رواں ہفتے امریکی نگرانی پروگرام کے بارے میں واشگٹن میں مذاکرات کیے۔ جرمن وزیر داخلہ نے کہا کہ اسنوڈن کی طرف سے کسی بھی قسم کی معلومات ان کی حکومت کے لیے بیش قیمت ہوں گی۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ انھوں (قانون ساز) نے اسنوڈن سے کیا بات چیت کی لیکن اگر پیغام یہ ہے کہ اسنوڈن ہمیں معلومات دینا چاہتے ہیں اور ہمیں کسی بارے میں بتانا چاہتے ہیں پھر ہم اسے خوشی سے قبول کریں گے کیونکہ کوئی بھی وضاحت اور معلومات ہمیں حاصل ہو گراں قدر ہوسکتی ہے۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جمعرات کو کہا تھا کہ امریکی نگرانی کا معاملہ چند واقعات میں ’’حدر سے بہت آگے ‘‘ بڑھ گیا اور انہوں نے یقین دلایا کیا ہے کہ ایسا دوبارہ نہیں ہوگا۔
دریں اثناء امریکی سینٹ کی کمیٹی برائے انٹلیجنس نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے ذریعے خفیہ ادارے مواصلاتی ریکارڈ کو محفوظ بنانے کے لیے مزید اقدامات کر سکیں گے۔ اس کے تحت ایسے ریکارڈ کو پانچ سال تک محفوظ رکھا جا سکے گا۔
یہ تنازع اب ایشائی ممالک تک پہنچ گیا ہے اور انڈونیشیا نے آسٹریلین سفیر کو ان رپورٹس کے منظر عام پر آنے کے بعد طلب کیا جس میں کہا گیا تھا کہ آسٹریلیا نے انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ویت نام، چین اور ایسٹ تیمور میں اپنے سفارت خانوں میں خفیہ طور پر امریکی نگرانی کے پروگرام کی اجازت دی تھی۔
جرمنی کے وزیر داخلہ ہنس پیٹر فریڈرک نے کہا کہ روس میں پناہ لیے امریکی مفرور اسنوڈن سے کسی بھی قسم کی معلومات کا خیر مقدم کیا جائے گا اگرچہ یہ بات واضح نہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہوگا۔
برلن کے اعلیٰ سیکورٹی عہدیدار کی طرف سے یہ بیان ماسکو میں جرمنی کے ایک قانون ساز کی اسنوڈن سے ملاقات کے بعد سامنے آیا۔
قانون ساز ہنس کرسچن اسٹروبلے نے اپنی ملاقات کے بعد کہا کہ امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے سابق کنٹریکٹ ملازم نے انہیں جرمن حکومت کے نام ایک خط دیا ہے جس میں اسنوڈن نے امریکہ کو ہدف تنقید بنایا۔
امریکی اور جرمن سرکردہ عہدیداروں نے رواں ہفتے امریکی نگرانی پروگرام کے بارے میں واشگٹن میں مذاکرات کیے۔ جرمن وزیر داخلہ نے کہا کہ اسنوڈن کی طرف سے کسی بھی قسم کی معلومات ان کی حکومت کے لیے بیش قیمت ہوں گی۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ انھوں (قانون ساز) نے اسنوڈن سے کیا بات چیت کی لیکن اگر پیغام یہ ہے کہ اسنوڈن ہمیں معلومات دینا چاہتے ہیں اور ہمیں کسی بارے میں بتانا چاہتے ہیں پھر ہم اسے خوشی سے قبول کریں گے کیونکہ کوئی بھی وضاحت اور معلومات ہمیں حاصل ہو گراں قدر ہوسکتی ہے۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جمعرات کو کہا تھا کہ امریکی نگرانی کا معاملہ چند واقعات میں ’’حدر سے بہت آگے ‘‘ بڑھ گیا اور انہوں نے یقین دلایا کیا ہے کہ ایسا دوبارہ نہیں ہوگا۔
دریں اثناء امریکی سینٹ کی کمیٹی برائے انٹلیجنس نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے ذریعے خفیہ ادارے مواصلاتی ریکارڈ کو محفوظ بنانے کے لیے مزید اقدامات کر سکیں گے۔ اس کے تحت ایسے ریکارڈ کو پانچ سال تک محفوظ رکھا جا سکے گا۔
یہ تنازع اب ایشائی ممالک تک پہنچ گیا ہے اور انڈونیشیا نے آسٹریلین سفیر کو ان رپورٹس کے منظر عام پر آنے کے بعد طلب کیا جس میں کہا گیا تھا کہ آسٹریلیا نے انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ویت نام، چین اور ایسٹ تیمور میں اپنے سفارت خانوں میں خفیہ طور پر امریکی نگرانی کے پروگرام کی اجازت دی تھی۔