تارکینِ وطن کا بحران، یورپی یونین کا اجلاس بلانے کا مطالبہ

تارکینِ وطن کو روکنے کے لیے ہنگری کی حکومت نے سربیا کے ساتھ واقع اپنی 175 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑھ لگانے کا عمل شروع کردیا ہے۔

جرمن چانسلر اینگلا مرخیل نے یورپی یونین کے دیگر رکن ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ تارکینِ وطن سے متعلق اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور ان کی میزبانی کے لیے آگے آئیں۔

یورپ کی تین بڑی طاقتوں جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ہزاروں کی تعداد میں تارکینِ وطن کی آمد اور ان کی آباد کاری پر غور کے لیے یورپی یونین کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

تینوں ملکوں کے وزرائے داخلہ کی جانب سے اتوار کو جاری کیے جانے والے ایک مشترکہ بیان میں یورپ کے 28 ملکوں کی یونین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ تارکینِ وطن کی بڑی تعداد میں آمد کی باعث پیدا ہونے والے بحران پر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کرے۔

تینوں ملکوں کے وزرائے داخلہ نے اپنے بیان میں تارکینِ وطن کے یورپ میں غیر قانونی داخلے کی حوصلہ شکنی کے لیے ان کی آمد کے راستے مخصوص کرنے اور وہاں ان کے اندراج کا طریقہ کار وضع کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

بیان میں تجویز دی گئی ہے کہ تارکینِ وطن کی رجسٹریشن کے لیے سالِ رواں کے اختتام تک یونان اور اٹلی میں مراکز قائم کیے جائیں جہاں غیر قانونی راستوں سے یورپ پہنچنے والے افراد کی مکمل معلومات کا اندراج کیا جاسکے۔

تینوں ملکوں کے وزرائے داخلہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ابتدائی مراکز میں مکمل معلومات کے اندراج کے نتیجے میں ایسے تارکینِ وطن کے تعین میں مدد ملے گی جنہیں تحفظ اور پناہ کی واقعی ضرورت ہو۔

خیال رہے کہ ایشیا، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے خانہ جنگی کا شکار اور جنگ زدہ ملکوں سے آنے والے بیشتر پناہ گزین انہی دو ملکوں – یونان اور اٹلی - کے راستے یورپ میں داخل ہوتے ہیں۔

جرمن چانسلر اینگلا مرخیل نے بھی یورپی یونین کے دیگر رکن ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ تارکینِ وطن سے متعلق اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور ان کی میزبانی کے لیے آگے آئیں۔

اتوار کو برلن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جرمن چانسلر نے کہا کہ یورپی ملکوں کو ان تارکینِ وطن کی آباد کاری کے لیے کوٹے پر جلد متفق ہونا ہوگا تاکہ سردیوں کی آمد سے قبل اس بحران پر قابو پایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یورپ واقعی متحد ہے اور مختلف بحرانوں میں اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرتا رہا ہے تو پھر اسے اس بحران کا بھی متحد ہوکر سامنا کرنا چاہیے۔

جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ وہ رواں سال آٹھ لاکھ غیر قانونی تارکینِ وطن کو پناہ فراہم کرے گی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہیں۔

فرانس کے وزیرِاعظم مینوئل والز بھی اعلان کرچکے ہیں کہ ان کا ملک جنگوں اور بحرانوں سے بچ کر فرار ہونے والے تارکینِ وطن کا استقبال کرے گا۔

لیکن بعض یورپی حکومتیں ان تارکینِ وطن کو قبول کرنے سے انکاری ہیں اور یورپی یونین کی جانب سے بحران کے مقابلے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی بنانے اور رکن ملکوں کے مابین تارکینِ وطن کی آبادکاری کا کوٹہ مختص کرنے کے منصوبوں کی مخالفت کر رہی ہیں۔

جرمن چانسلر اینگلا مرخیل کے ایک ترجمان نے واضح کیا ہے کہ صرف جرمنی اور بعض دیگر ممالک تنہا تمام تارکینِ وطن کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے اور یورپی ملکوں کو ان تارکینِ وطن کی مساوی تقسیم پر اتفاق کرنا ہوگا۔

تارکینِ وطن کی آباد کاری کے مشترکہ منصوبوں کی مخالفت کرنے والوں میں ہنگری سرِ فہرست ہے جہاں کی دائیں بازو کی حکومت ان تارکینِ وطن کو یورپ کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے چکی ہے۔

یونان کے ساحل پر اترنے والے غیر قانونی تارکینِ کی اکثریت میسی ڈونیا اور سربیا سے ہوتے ہوئے ہنگری کے راستے یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے۔

لیکن ہنگری کی حکومت نے ان تارکینِ وطن کو روکنے کے لیے سربیا کے ساتھ واقع اپنی 175 کلومیٹر طویل جنوبی سرحد پر چار میٹر بلند باڑھ لگانے کا عمل شروع کردیا ہے جس کا پہلا مرحلہ قبل از وقت مکمل بھی کرلیا گیا ہے۔

کئی یورپی ممالک ہنگری کی حکومت کے اس اقدام پر کڑی تنقید کررہے ہیں اور اسے بحران میں اضافے کی وجہ قرار دے چکے ہیں۔

ہنگری کی پولیس سربیا سے متصل اپنے سرحدی علاقے میں رواں سال اب تک ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد غیر قانونی تارکینِ وطن کو گرفتار کرچکی ہے جب کہ حکومت ایک نیا قانون بھی متعارف کرانے جارہی ہے جس میں غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں تجویز کی جارہی ہیں۔