امریکہ پر 11 ستمبر کے حملوں کے سرغنے، اسامہ بن لادن کا سابق مبینہ محافظ جرمن حکومت سے ملنے والے ’گزارہ الائونس‘ پر پل رہا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق، حالانکہ اُنھیں سیاسی پناہ دینے سے انکار کیا جا چکا ہے، لیکن اُنھیں ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔
جرمن اخبار ’بائلڈ‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں سابق محافظ کی شناخت 42 برس کے ’سمیع اے‘ کے طور پر کی گئی ہے، تاکہ اُن کی نجی معلومات صیغہٴ راز میں رہے۔ بتایا گیا ہے کہ اُنھیں اپنے آبائی وطن، تیونس اس لیے ملک بدر نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہاں اُنھیں اذیت دیے جانے کا خوف ہے۔
وہ 1997ء سے اپنی جرمن بیوی اور تین بچوں کے ہمراہ جرمنی کے شہر بوکم میں رہتا ہے۔
’سمیع اے‘ بہبود کی مد میں جرمن حکومت سے ہر ماہ ملنے والا تقریباً 1430 ڈالر کا چیک وصول کرتا ہے، جس رقم کا پتا اُس وقت چلا جب دائیں بازو کی قدامت پسند سیاسی جماعت، ’آلٹرنیٹو فور جرمنی (اے ایف ڈی)‘ نے ’سمیع اے‘ کی زندگی کے بارے میں مقامی حکام سے تفصیل معلوم کی۔
بتایا گیا ہے کہ اُن کا اہل خانہ بھی دیگر سماجی پروگراموں سے استفادہ کر رہا ہے، جیسا کہ رہائش، گھر کو گرم رکھنے کے نظام کی سہولت اور لباس کی ضروریات۔
سکیورٹی حکام نے طے کیا ہے کہ ’سمیع اے‘ کو 1999ء اور 2000ء کے دوران افغانستان میں القاعدہ کے دہشت گرد کیمپوں میں تربیت دی گئی، اور بعدازاں وہ بن لادن کا سکیورٹی گارڈ بنا۔
بائلڈ نے رپورٹ دی ہے کہ 2005ء میں دہشت گردی کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عینی شاہدین نے سمیع اے پر الزام لگایا تھا کہ نئی عیسوی صدی کی آغاز پر وہ افغانستان۔ پاکستان سرحد کے قریب رہائش کے دوران، بن لادن کا باڈی گارڈ رہ چکا ہے، جس کے بارے میں جج نے کہا تھا کہ یہ درست بات ہے، حالانکہ سمیع اے اس سے انکار کرتے ہیں۔
سنہ 2005اور 2006میں رہائش کے اجازت نامے کی تجدید نہیں کی گئی تھی۔
بعدازاں، کئی بار اُن کی ملک بدری کے احکامات جاری ہوتے رہے، جس کے خلاف ’سمیع اے‘ نے اپیل دائر کی۔ ’بائلڈ‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عدالتوں نے اپریل، 2017ء میں اس حکم کو واپس لینے کا فیصلہ سنایا۔ عدالتوں نے مقدمے پر نظر ثانی کی اور فیصلہ دیا کہ اگر اُنھیں ملک بدر کیا جاتا ہے تو اُنھیں اذیت رسانی کا سامنا ہوگا۔
حالانکہ اُنھیں ’سکیورٹی رسک‘ خیال کیا جاتا ہے، ’سمیع اے‘ کو ہر روز بوکم کی پولیس کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے، جو کام وہ 2006ء سے اب تک بلا ناغہ کرتے آ رہے ہیں۔ سلامتی سے متعلق تشویش کے باعث اُنھیں سیاسی پناہ دیے جانے سے انکار کیا گیا تھا۔