ماں بننے کی عمر جین طے کرتی ہے: تحقیق

آکسفورڈ یونیورسٹی سے منسلک تحقیق دانوں نےکہا کہ بیسویں صدی کی عورتیں تاخیر سے بچہ پیدا کر رہی ہیں اس کےباوجود کہ مضبوط جینیاتی عوامل انھیں نوجوانی میں بچہ پیدا کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں ۔

ایک نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے تاخیر سے ماں بننے کے رجحان کی وضاحت حیاتیاتی عوامل کے ذریعے کی ہے جن کا کہنا ہے کہ عورتیں کونسی عمر میں پہلا بچہ پیدا کریں گی اور ان کے کل کتنے بچے ہوں گے اس بات کے تعین میں جین کا اہم کردار ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے منسلک تحقیق دانوں نے کہا کہ بیسویں صدی کی عورتیں تاخیر سے بچہ پیدا کر رہی ہیں، اس کے باوجود کہ مضبوط جینیاتی عوامل انھیں نوجوانی میں بچہ پیدا کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں۔

تازہ ترین مطالعہ 'پلوس ون' میں شائع ہوا ہے جس میں دریافت ہوا کہ کچھ عورتیں جینیاتی طور پر دوسری عورتوں کے مقابلے میں بچوں کی پیدائش کے لیے تیار تھیں. ماہرین نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ ان عورتوں کی تولیدی صلاحیت کا فائدہ آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتا ہے۔

یورپی ریسرچ کونسل کی طرف سے منعقدہ بین الاقوامی مطالعے کے مطابق جدید دور کی عورتیں گذشتہ نسل کے مقابلے میں کم عمری میں بچوں کی مائیں بن سکتی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ بچوں کی پیدائش میں تاخیر کر رہی ہیں۔

تحقیی ماہرین نے برطانیہ اور ہالینڈ میں 7000 خواتین میں جینیوم کے تجزیہ کی بنیاد پر ایک مطالعے کا انعقاد کیا اور اس بات کا جائزہ لیا کہ ماؤں کے بچے پیدا کرنے کی عمر اور بچوں کی تعداد پر جینیات کا کیا کردار ہو سکتا ہے۔

تجرباتی مطالعے کے لیے ماہرین نے مختلف عمر کی خواتین کے جینیاتی میک اپ میں مماثلت کو دیکھا جس سے پتہ چلا کہ ڈی این اے عورتوں کے درمیان پہلی بار ماں بننے کی عمر کے اختلافات کے لیے 15 فی صد کی وضاحت کرتا ہے اور بچوں کی تعداد کے فرق کے لیے 10 فی صد جین ذمہ دار ہے۔

مطالعہ کی قیادت کرنے والی محقق پروفیسر ملینڈا ملز نے کہا کہ ماہرین سماجیات کی جانب سے بچوں کی پیدائش میں تاخیر کے فیصلے کو اب تک غیر حیاتیاتی عوامل مثلاً عورتوں کی یونیورسٹی کی تعلیم اور ملازمت جیسے عوامل کے ذریعے زیر بحث لایا گیا ہے۔

لیکن ہم نے اپنی تحقیق میں دیکھا ہے کہ یہاں واضح طور پر جینیاتی جزو ماؤں کی عمر کے ساتھ منسلک تھا کہ وہ کب خاندان شروع کریں گی اور ان کے بچوں کی تعداد کتنی ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ جین کے اثرات کے حوالے سے کچھ مشترک دریافت ہوا جس کی جزوی وضاحت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو عورتیں پہلے بچے پیدا کر لیتی ہیں ان کے ہاں بچوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔

تاہم مطالعہ میں مخصوص جین کی شناخت نہیں کی گئی ہے جو پہلے یا بعد میں ماں بننے کے ساتھ منسلک ہے۔

سوشل سائنس اور جینیات کی پروفیسر ملز نے کہا کہ یہ ایک جین نہیں ہے بلکہ جینیاتی مواد کا مجموعہ ہے اور ان میں سے کچھ جین بلاشبہ بچہ پیدا کرنے کی تولیدی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں جس سے کم تولیدی صلاحیت رکھنے والی عورت کے لیے حاملہ ہونے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

پروفیسر ملز کے مطابق یہ جینیاتی اثر و رسوخ تولیدی صلاحیت کے دونوں پہلوؤں پر مشترک تھا، ایک ہی جین جو اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ایک عورت کونسی عمر میں ماں بنے گی وہ بچوں کی تعداد کو متاثر کرنے کے ساتھ بھی ملوث تھی۔

محققین نے امید ظاہر کی کہ اس مطالعے کے ذریعے بچوں کی پیدائش کی تاخیر کے حوالے سے واضح تصویر سامنے لائی جاسکے گی جبکہ حالیہ نتائج نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اگرچہ بعض سماجی عوامل کی وجہ سے اکثر خاندان دیر سے شروع ہوتا ہے تاہم جینیات سے اس بات کی وضاحت ہوئی ہے کہ اس کے علاوہ بھی کیا چیز اہم کردار ادا کرتی ہے جیسا کہ عمر کے ساتھ تولیدی صلاحیت میں کمی واقع ہونا۔

انھوں نے کہا کہ ہماری تحقیق کا نتیجہ لوگوں کو ان کی حیاتیاتی عمر اور تولیدی صلاحیت کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے جس سے انھیں اس بارے میں فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ وہ بچے کی پیدائش کے لیے کتنا انتطار کر سکتے ہیں۔