پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ افغانستان کی قیادت اور افغانوں کی شمولیت سے مصالحتی عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے سازگار ماحول ضروری ہے۔
یہ بات انھوں نے امریکہ کی خفیہ ایجنسی "سی آئی اے" کے سربراہ جان برینن سے واشگنٹن میں ہونے والی ملاقات میں کہی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے ٹوئٹر پر بتایا کہ دونوں عہدیداروں کی ملاقات میں خطے کی صورتحال سمیت سلامتی کے دیگر امور زیر بحث آئے۔
انھوں نے بتایا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے پاکستانی فوج کے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن "ضرب عضب" سے حاصل ہونے والے نتائج اور اس سلامتی پر اس کے اثرات کو سراہا۔
جنرل راحیل شریف رواں ہفتے ہی امریکہ کے پانچ روزہ دورے پر پہنچے تھے جہاں ان کی امریکی محکمہ دفاع اور خارجہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں طے ہیں۔
2013ء میں پاکستانی فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد یہ ان کا دوسرا دورہ امریکہ ہے۔
پاکستانی فوج نے گزشتہ سال افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا تھا۔ امریکہ اور مغربی ممالک یہ باور کرتے ہوئے کہ یہ علاقہ القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کی آماجگاہ ہے، پاکستان سے یہاں فوجی کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا تھا لیکن پاکستان کا موقف تھا کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر یہ کارروائی کرے گا۔
اس فوجی آپریشن میں پاکستانی فوج کے مطابق اب تک تین ہزار سے زائد ملکی و غیر ملکی عسکریت پسند ہلاک کیے جا چکے ہیں جب کہ ان کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔
لیکن ساتھ ہی پاکستان یہ شکوہ بھی کرتا دکھائی دیتا ہے کہ افغانستان اپنی طرف دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے درکار تعاون فراہم نہیں کر رہا جس کی وجہ سے آپریشن ضرب عضب کی افادیت متاثر ہو رہی ہے۔
پاکستان نے افغانستان میں مصالحتی عمل شروع کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا اور پہلی بار افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے مابین براہ راست ملاقات کی انتظام کیا۔
یہ ملاقات رواں سال سات جولائی کو اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں ہوئی تھی جس میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی موجود تھے۔
ملاقات کا دوسرا دور بوجوہ نہ ہو سکا اور پھر افغانستان میں طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں اضافے اور ان کے آپسی اختلافات کے باعث مذاکرات کے مستقبل پر بھی خدشات کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔