پاکستان مخالف تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے: جنرل راحیل

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جاری کارروائیوں میں فوج کو قابل ذکر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ بیرون ملک موجود پاکستان مخالف عناصر اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق یہ معاملہ انھوں نے لندن میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور قومی سلامتی سے متعلق ان کے مشیر کے ساتھ ملاقاتوں میں اٹھایا۔

جنرل راحیل شریف بدھ کو دو روزہ سرکاری دورے پر برطانیہ پہنچے تھے جہاں انھوں نے اعلیٰ سیاسی و عسکری عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔

سرکاری بیان کے مطابق انھوں نے برطانوی وزیردفاع مائیکل فالن اور چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل سر نکولس ہفٹن سے بھی ملاقات کی جس میں دوطرفہ سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس موقع پر علاقائی سلامتی، استحکام، افغانستان، باہمی سلامتی کے امور، دفاعی تعاون کے امور بھی زیر بحث آئے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان عاصم باجوہ نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جاری کارروائیوں میں فوج کو قابل ذکر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ان کے بقول یہ آپریشن تمام دہشت گردوں کے خلاف بغیر کسی تفریق کے جاری ہے۔

پاکستانی فوج نے گزشتہ سال جون سے شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں "ضرب عضب" کے نام سے بھرپور کارروائی شروع کر رکھی ہے جب کہ گزشتہ ماہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد پورے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں بھی تیزی دیکھی جارہی ہے۔

پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک دہائی سے زائد عرصے تک ایک ہراول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور اب عہدیدار بیرونی دنیا سے اس کے ہاں جاری شدت پسندوں کےخلاف لڑائی میں تعاون کے خواہاں ہیں۔

ادھر آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیرداخلہ شجاع خانزادہ کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور دہشت گردی کے مجرموں کی پھانسیوں پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد ملک میں سکیورٹی کے خدشات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

جمعرات کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کی طرف سے تعلیمی اداروں، ہوائی اڈوں، فوجی اور دیگر سرکاری تنصیبات کے علاوہ عام شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ہے۔ لیکن انھوں نے کہا کہ ان خدشات کے پیش نظر رکھتے ہوئے فوج سمیت تمام سکیورٹی اور متعلقہ ادارے چوکس ہیں۔

ادھر وزیراعظم نواز شریف نے ایک بیان بھی کہا ہے کہ ملک کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے جس کے تناظر میں دیگر اقدامات سمیت فوجی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔

ان کے بقول دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے فوجی عدالتیں محدود وقت کے لیے قائم کی گئی ہیں۔

گزشتہ ماہ ملک کی جیلوں میں دہشت گردی کے جرم میں قید موت کی سزا پانے والے مجرموں کی پھانسیوں پر عائد پابندی بھی ختم کر دی گئی تھی جس کے بعد سے اب تک لگ بھگ 18 مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلایا جائے گا تاکہ ان پر شفاف انداز سے جلد فیصلے کیے جا سکیں۔