جنرل باجوہ فیملی کے ٹیکس ریٹرنز لیکس: کیا یہ تفصیلات عام کرنا غیر قانونی ہے؟

پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باوجوہ کے اہلِ خانہ کی ٹیکس تفصیلات اور مبینہ اثاثے منظر عام پر آنے کے بعد یہ بحث کی جارہی ہے کہ کیا یہ عمل قانونی اور اخلاقی اعتبار سے درست ہے? کیا اہم عہدوں پر تعینات افراد کے اثاثے عوام کو ظاہر نہیں کیے جانے چاہئیں؟

یہ تفصیلات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت ختم ہونے میں چند ہی دن باقی ہیں اور وہ 29 نومبر کو اپنے منصب سے ریٹائر ہو جائیں گے۔

اتوار کو ویب سائٹ 'فیکٹ فوکس' پر شائع کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں آرمی چیف اور ان کے اہلِ خانہ کے اثاثہ جات سے متعلق تفصیلات سامنے لائی گئیں تھیں۔

خیال رہے کہ جنرل باوجوہ یا ان کے اہلِ خانہ نے فیکٹ فوکس کی رپورٹ کی تاحال تردید نہیں کی اور نہ ہی پاکستانی فوج کی جانب سے اس حوالے سے کوئی ردِعمل سامنے آیا ہے۔

پاکستان میں ماضی میں بھی اہم عہدوں پر تعینات افراد اور ان کے اہلِ خانہ کے اثاثوں اور ٹیکس کی معلومات عام کی جاتی رہی ہیں۔


'معلومات کے حق اور ذاتی زندگی میں فرق رکھنا ہوگا'

ٹیکس قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی کے ٹیکس ریکارڈ کا لیک ہونا، اداروں کی لاپرواہی کا عکاس ہے جو کہ کسی کی ذاتی اور حساس معلومات کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔

ٹیکس قوانین کے ماہر احمد بشیر کہتے ہیں کہ زیادہ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ اس تحقیقاتی رپورٹ میں جنرل باجوہ کے اہلِ خانہ یعنی ان کی بیوی، بچوں حتی کہ بہن اور بہو کے اثاثے اور ٹیکس تفصیلات بھی عام کی گئی ہیں جو کہ کسی صورت درست نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ان کی رائے میں اہم ریاستی و حکومتی عہدوں پر تعینات افراد چاہے وہ فوج کے سربراہ ہوں، ججز ہوں یا وفاقی سیکریٹری ان کے اثاثے ظاہر کیے جانے چاہئیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی بیوی، بیٹی، بہو اور بہن کے اثاثے بھی عام کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ "کسی شخص کی اپنی ذمے داریاں اور شخصی آزادی ہے اور زیرِ کفالت افراد کی بھی اپنی تعریف ہے جس کے تحت ضروری نہیں ہے کہ بالغ بچے اور ملازمت پیشہ بیوی زیرِ کفالت میں آئیں۔ "

'ٹیکس معلومات کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوسکتی'

ایف بی آر کے سابق چیئرمین عبدلہہ یوسف کہتے ہیں کہ ٹیکس معلومات صرف ٹیکس مقاصد کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں اور انہیں کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اسی بنا پر عوامی منتخب نمائندوں کے علاوہ کسی کی ٹیکس تفصیلات جاری نہیں کی جاتی نہ ہی انہیں قواعد کے تحت حاصل کیا جاسکتا ہے۔

عبداللہ یوسف کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص چاہے وہ کسی بھی عہدے پر ہو اس کو اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے ہوتے ہیں لیکن ان معلومات کو عام کرنا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔

وزارتِ خزانہ کے مطابق آرمی چیف کے اہلِ خانہ کا ٹیکس ریکارڈ لیک ہونا ٹیکس قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

SEE ALSO: پاکستان کا اگلا آرمی چیف کون ہو سکتا ہے؟


'اہم عہدے دار رضاکارانہ طور پر اثاثے ظاہر کریں'

پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر سمجھتے ہیں کہ اہم عہدوں پر تعینات افراد کو اپنی نامزدگی سے قبل اور مدت میعاد کے احتتام پر رضاکارانہ طور پر اپنے اثاثہ جات ظاہر کرنے چاہئیں تاکہ معاشرے میں خود احتسابی کے عمل کو پروان چڑھایا جاسکے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہمارے ملک میں قانون صرف اراکین پالیمنٹ کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے اثاثہ جات کو الیکشن کمیشن میں ظاہر کریں جو کہ عوام کے لیے عام کیے جاتے ہیں۔ فرحت اللہ بابر کے خیال میں سیکیورٹی اداروں، ججز اور بیوروکریٹس پر بھی یہ قانون لاگو ہونا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ اہم عہدوں پر تعینات افراد اگر اپنے اثاثے عوام کو ظاہر نہیں کرسکتے تو کم از کم وہ ادارہ جاتی سطح پر انہیں ظاہر کریں تاکہ متعلقہ ادارے دیکھ سکیں کہ کوئی غیر معمولی اضافہ تو نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت قانون کے مطابق بیوروکریسی اپنے اثاثے اپنی متعلقہ وزارت کو ظاہر کرتی ہے۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ انہوں نے سینیٹ میں سوال اٹھایا تھا کہ یہ بتایا جائے کہ کیا فوجی افسران بھی اپنے اثاثے ظاہر کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ یہ خفیہ اور حساس معاملہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی رائے میں یہ حفیہ اور حساس معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔

یاد رہے کہ وفاقی کابینہ اور منتخب اراکین پارلیمنٹ کے اثاثوں اور ٹیکس ریکارڈ کی تفصیلات ایف بی آر کی جانب سے باقاعدگی سے ہر سال جاری کی جاتی ہیں۔

فرحت اللہ بابر سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کا اخلاقی پہلو یہ ہے کہ اگر کسی پر غلط الزام لگایا گیا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی وضاحت کرے اور غلط الزام لگانے والے کے خلاف قانونی کارروائی کرے تاکہ حقائق عوام کے سامنے آسکیں۔

'ڈیٹا کے تحفظ کا قانون موجود نہیں ہے'

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہلِ خانہ کے ٹیکس ریکارڈ لیک ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے 24 گھنٹوں میں ذمے داروں کا تعین کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملک میں ڈیٹا پروٹیکشن قانون نہ ہونے کے باعث عوامی ڈیٹا رکھنے والے اداروں پر اسے محفوظ رکھنے کی کوئی قانونی بندش نہیں ہے۔

احمد بشیر نے بتایا کہ صرف 2021 میں دو مرتبہ ایف بی آر کا تمام ڈیٹا چوری ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ادارے جو ڈیٹا اکھٹا کرتے ہیں ان پر کوئی قانونی بندش نہیں ہے کہ وہ اس ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے پابند بنیں کیوں کہ ملک میں ڈیٹا کے تحفظ کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

احمد بشیر کہتے ہیں کہ ڈیٹا پروٹیکشن بل کا مسودہ 2016 سے پارلیمنٹ میں پیش کیا ہوا ہے جو کہ حیرت کی بات ہے کہ تاحال منطور نہیں ہوسکا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر ایف بی آر کا ڈیٹا چوری ہوا ہے تو اس پر قانونی طور پر کوئی سزا نہیں ہے البتہ ادارہ جاتی قواعد کے تحت تفتیش ضرور ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کسی طور بھی کسی ٹیکس فائلر کی تفصیلات کسی کو نہیں دے سکتا ہے اور اگر کسی نے یہ معلومات فراہم کی ہیں تو اس کے خلاف انتظامی قواعد کے تحت کاروائی بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

عبداللہ یوسف کہتے ہیں کہ یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ یہ معلومات کہاں سے لیک ہوئیں اور تحقیقاتی ٹیم متعلقہ ڈپارٹمنٹ کی جانچ سے اس نتیجے تک پہنچ سکتی ہے۔