بھارت میں صحافی اور سماجی کارکن گوری لنکیش کے قتل کے خلاف متعدد شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ گوری لنکیش کو اُن کے شہر بنگلورو میں موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے اُس وقت گولی مار کر ہلاک کیا جب وہ دفتر سے واپسی پر گھر کے دروازے کے قریب اپنی گاڑی سے باہر نکل رہی تھیں۔حملہ آوروں نے اُن کے سینے میں چار گولیاں داغ دیں جن سے موقع پر ہی اُن کی موت واقع ہوگئی۔ اُن کی آخری رسومات آج بدھ کے روز ادا کر دی گئی ہیں۔
55۔ سالہ گوری سیکولرازم کی حامی اور قوم پرست سیاست کی سخت مخالف تھیں۔ وہ حکمران جماعت بی جے پی کی انتہاپسندانہ پالیسیوں پر کھل کر تنقید کیا کرتی تھیں۔
اُن کے قتل سے دنیا بھر کے میڈیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور صحافت سے تعلق رکھنے والے اداروں نے اسے بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت سے تعبیر کیا ہے۔ 'ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا' کا کہنا ہے کہ گوری کا قتل نہ صرف جمہوریت پر ایک کاری ضرب ہے بلکہ یہ آزادی صحافت پر بھی سفاک حملہ ہے۔
ایڈٹرز گلڈ کے سابق صدر آلوک مہتا کا کہنا ہے کہ ''گوری کا قتل محض ایک صحافی کا قتل نہیں ہے بلکہ یہ اُن تما م آوازوں کو خاموش کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہے جو انتہا پسند ہندو نظریات اور بھارت کی سیکولر حیثیت کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں''۔
گوری کاناڈا زبان کے ہفتہ وار اخبار 'لنکیش پتریکا' کی مدیر تھیں۔ وہ بائیں بازو کے نظریات کی حامی تھیں اور دائیں بازو کی انتہا پسند ہندو سیاست کی سخت مخالف تھیں۔ اُن کی متعدد حالیہ تحریروں میں حکمران بی جے پی کی پایسیوں پر تنقید کی گئی تھی۔
گزشتہ برس بی جے پی کے مقامی لیڈروں نے اُن پر ہتک عزت کا مقدمہ قائم کر دیا تھا جس کے بارے میں گوری کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے۔ اس مقدمہ میں اُنہیں ضمانت مل گئی تھی اور اُنہوں نے اس کیس کا بھرپور مقابلہ کرنے کا عہد کیا تھا۔
صحافیوں کی تنظیم Reporters Without Borders نے اُن کے قتل پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہندو قوم پرست قومی مباحثے سے تمام مخالف خیالات کے حامل لوگوں کو چن چن کر ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں''۔
2014 میں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد بہت سے اعتدال پسند لوگ بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پر تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں گوری سے قبل ہونے والے قتل کے متعدد مزید واقعات کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ 2015 میں ممتاز دانشور ملے شپا کلبرگی کو قتل کر دیا گیا تھا جو بت پرستی اور توہم پرستانہ اعتقادات کو ہدف تنقید بناتے تھے۔ اُن کے علاوہ، 2013 میں بھی سماجی کارکن نرندر ڈھولکر کو انہی وجوہات کی بنا پر قتل کیا گیا تھا۔
حزب مخالف کی جماعت، کانگریس پارٹی کے سرکردہ لیڈر کپل سبل کا کہنا ہے کہ ''ایک ایسے ملک میں جہاں جمہوریت اور مختلف نظریات پائے جاتے ہیں، مخالفین کو قتل کیا جا رہا ہے''۔
گوری کے ایک صحافی ساتھی کے نیلا نے ریاستی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مخالف نظریات کے حامی افراد کے قتل کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اُنہوں نے ایک بیان میں کہا ، ’’جب ہم نے وزیر اعلیٰ سدارامایا سے کالبرگی کے قتل کے سلسلے میں انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تو اُنہوں نے محض یقین دہانیاں کرا دیں۔ لیکن اس قتل کے دو سال بعد بھی یہ پتہ نہ چلایا جا سکا کہ اُنہیں کس نے قتل کیا ہے۔اگر اُس قتل کے سلسلے میں اب تک انصاف فراہم کر دیا جاتا تو ہو سکتا ہے کہ گوری کے قتل کا واقعہ پیش ہی نہ آتا۔‘‘
اُدھر بھارت کے مرکزی وزیر برائے ٹرانسپورٹ، ہائی ویز، شپنگ اور آبی ذرائع نتن گاڈکری نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''گوری کے قتل کی ذمہ داری بی جے پی یا اُن لوگوں پر ڈالنا غیر ذمہ دارانہ، بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے جو بی جے پی کے نظریات کے حامی ہیں''۔
تاہم، ٹویٹر پر بہت سے انتہاپسندوں کی جانب سے گوری کے قتل کرنے کی حمایت کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
گوری کا تعلق کرناٹک ریاست سے تھا، جہاں کانگریس پارٹی برسر اقتدار ہے۔ تاہم، اگلے ریاستی انتخابات آئیندہ برس متوقع ہیں۔