ایک حالیہ سروے کے مطابق دو تہائی پاکستانی شہریوں نے آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کی شفافیت اور حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
یہ سروے امریکی کمپنی 'گیلپ' نے کرایا ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستانی شہریوں میں معاشی، سیاسی اور ملکی سلامتی کو در پیش سیکیورٹی چیلنجز سے متعلق مایوسی میں اضافہ ہوا ہے اور انتخابات سے قبل ان میں پائی جانے والی بے چینی عروج پر ہے۔
سروے کے مطابق ملک میں سیاسی اور معاشی ماحول یکساں طور پر پریشان کُن ہے اور 10 میں سے سات پاکستانیوں نے انتخابات کی شفافیت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
گیلپ کے مطابق یہ سروے ایک ہزار افراد پر مشتمل سیمپل سے کیا گیا ہے جن کی عمر 15 برس سے زائد تھیں۔ یہ سروے ستمبر اور اکتوبر 2023 کے درمیان کیا گیا۔
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات سے قبل رائے عامہ کے مختلف جائزوں میں انتخابات کی شفافیت اور ملکی مستقبل پر انتخابی نتائج کے اثرات سے متعلق مختلف سرویز کے مختلف نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ کی جانب سے جاری کیے گئے سروے کے شرکا میں 65 فی صد افراد نے عام انتخابات شفاف ہونے کی توقع ظاہر کی تھی۔
وائس آف امریکہ کا یہ سروے ملٹی نیشنل کمپنی 'اپسوس' نے تین سے 12 جنوری کے درمیان کیا تھا جس میں 18 سے 34 برس عمر کے دو ہزار سے زائد افراد سے رائے لی گئی تھی۔
SEE ALSO: پاکستانی انتخابات: تاج پوشی کی طرح یا پہلے سے طے شدہ؟ بہت سے ووٹر مایوسانتخابات پر عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ گیلپ سروے کے 88 فی صد شرکا نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ حکومت میں کرپشن تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس کے علاوہ صرف 25 فی صد شرکا نے پاکستان میں قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
عدم اعتماد کیوں؟
گیلپ کا کہنا ہے کہ اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بے یقینی کا شکار ہے۔
رواں برس 30 جنوری کو عمران خان کو سائفر کے ایک متنازع مقدمے میں 10 برس قید اور اگلے ہی روز احتساب عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں 14 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
گزشتہ ہفتے عدت میں نکاح کے کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی بی کو سات سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔ عمران خان اور ان کی جماعت ان تمام مقدمات میں عائد کردہ الزامات کی تردید کرتی ہے۔
عمران خان کی پارٹی کو بھی مختلف مشکلات کا سامنا ہے۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا واپس لے چکی ہے اور اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی توثیق بھی مل چکی ہے۔
اس کے علاوہ کئی ماہ سے پی ٹی آئی کے امیدواروں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے جس میں کئی رہنماؤں کو جماعت چھوڑنے یا سیاست اور الیکشن ہی سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا گیا۔ اس کریک ڈاؤن میں فوج کے کردار پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
تاہم پی ٹی آئی کے کئی امیدوار اپنی انتخابی مہم کے لیے پارٹی کے سوشل میڈیا پلیٹ فورمز کا استعمال کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان کے نوجوانوں کو ملک کے اداروں پر کتنا اعتماد ہے؟گیلپ کا کہنا ہے کہ عمران خان کی پارٹی پر ہونے والے کریک ڈاؤن پر عوام میں واضح غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اتنخابی عمل پر عدم اعتماد ممکنہ طور پر ریاستی کریک ڈاؤن پر پائے جانے والے عوامی غم و غصے سے جڑا ہوا ہے۔
گیلپ سروے کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ 24 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے ملک میں غیر معمولی سیاسی اور معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس لیے الیکشن کوئی بھی جیتے، پاپولر مینڈیٹ کے بغیر یہ اصلاحات ممکن نہیں ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رائے دہی سے محرومی کی وجہ سے عوامی سطح پر بڑھنے والی بے چینی کے باعث کچھ عرصے کے لیے عدم استحکام میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ عدم استحکام پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور معیشت پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
پاکستان کی نگراں حکومت پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن اور اسے انتخاب سے باہر رکھنے کے الزمات کی تردید کرتی ہے۔
نگراں وزیرِ اطلاعات مرتضی سولنگی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت صاف اور شفاف انتخابات کرنے کا عزم رکھی ہے اور آٹھ فروری کے اتنخابات کا جائزہ لینے کے لیے درجنوں مبصرین اور غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کو دعوت دی گئی ہے۔
اس خبر کے بعض حصے وائس آف امریکہ کے لیے ایاز گل کی رپورٹ سے لیے گئے ہیں۔