جی 7 اجلاس: اوباما یوکرین پر یک آواز ہونے پر زور دیں گے

فائل

وائٹ ہاؤس نے تسلیم کیا ہے کہ اب تک کی جانے والی معاشی دباؤ کی کوششیں صدر پیوٹن کو یوکرین پر حکمت عملی تبدیل کرانے میں بارآور ثابت نہیں ہوئیں

امریکی صدر براک اوباما ہفتے کے دِن جرمنی کے دو روزہ دورے پر بون پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ ’گروپ آف سیون‘ (جی 7) میں شرکت کریں گے، جو دنیا کے سرکردہ سات صنعتی ملکوں کی تنظیم ہے۔

روس سنہ 1998 سے اِس گروپ کا حصہ رہا ہے، جسے ’گروپ آف ایٹ‘ کا نام دیا جاتا تھا، لیکن یوکرین میں ملوث ہونے کے باعث اُسے گذشتہ سال اِس تنظیم سے نکال دیا گیا تھا۔

اجلاس کے سرکاری ایجنڈا میں تجارت پر دھیان مرکوز رہے گا، یوکرین کے بحران پر بھی بات چیت ہوگی، اور توقع ہے کہ اِس موقع پر روس کی جانب سے یوکرین کے کرائمیا کے خطے کو ضم کرنے کے معاملے کو بھی زیرِ غور لایا جائے گا۔
اطالوی اخبار ‘کورے دیلا سیرا‘ میں ہفتے کو شائع ہونے والے ایک انٹرویر میں، یوکرین کے بحران پر بات کرتے ہوئے، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین پر الزام لگایا کہ وہ یورپی مصالحت میں فروری میں طے ہونے والے ’مِنسک سمجھوتے‘ پر عمل درآمد کرنے پر آمادہ نہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ امن معاہدے پر ڈونیسک اور لہانسک کی خودساختہ جمہوریاؤں کی قیادت کے ساتھ قریبی رابطے کے ذریعےعمل درآمد کیا جانا چاہیئے، جس معاملے پر یوکرین کو اعتراض ہے۔

مسٹر پیوٹن نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اور یورپی یونین کو یوکرین کی حکومت پر زور بار ڈالنا چاہیئے کہ وہ امن عمل کے حصول کے لیے سمجھوتے میں شامل شقوں پر عمل درآمد کرے۔اُنھوں نے کہا کہ روس علیحدگی پسند جمہوری ریاستوں کے حکام پر زور بار ڈالے گا۔

بڑھتی ہوئی تشدد کی کارروائیوں کا جواب دیتے ہوئے، وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ جی 7 سربراہ اجلاس کے دوران، صدر اوباما یورپی یونین کے قائدین پر زور دیں گے کہ وہ روس کی جانب سے مشرقی یوکرین میں کی جانے والی جارحیت پر روس کے خلاف عائد تعزیرات جاری رکھیں گے۔

وائٹ ہاؤس نے تسلیم کیا ہے کہ اب تک کی جانے والی معاشی دباؤ کی کوششیں صدر پیوٹن کو یوکرین پر حکمت عملی تبدیل کرانے میں بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔

اقوام متحدہ نے یوکرین تنازع میں ملوث دونوں فریق سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سال کے اوائل میں ہونے والے فائربندی کے سمجھوتے کی صحیح معنوں میں پاسداری کی جائے۔

امریکی وزیر دفاع، ایشٹن کارٹر جمعے کے روز کہہ چکے ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے اپنے عزائم کے فروغ کی جو بھی ترجیحات ہوں، یورپ سمیت باقی دنیا اپنی پیش رفت جاری رکھے گی۔ کارٹر نے کہا کہ مسٹر پیوٹن دنیا کی رفتار کے ساتھ نہیں چل رہے، بلکہ عام ڈگر سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

روس اِس بات پر مصر ہے کہ اُس کا مشرقی یوکرین کی لڑائی میں براہ راست کوئی کردار نہیں اور باغیوں کو ہتھیار اور لڑاکا فراہم کرنے کے الزام کو بارہا مسترد کرتا رہا ہے۔

روس، یوکرین، فرانس اور جرمنی نے فروری میں منسک میں ایک سمجھوتے پر دستخط کیے تھے جس میں دونوں فریق سے کہا گیا تھا کہ وہ ’لائن آف کانٹیکٹ‘ پر نصب بھاری ہتھیار ہٹا لیں۔ تاہم، بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ اِن شقوں کو بُری طرح سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔