بھارت کی میزبانی میں دنیا کی طاقت ور معیشتوں اور ترقی پذیر ملکوں کے گروپ جی-20 کے وزرائے خارجہ اور وزرائے خزانہ کے الگ الگ اجلاسوں کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہونے کو بعض تجزیہ کار نئی دہلی کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔
نئی دہلی میں جمعرات کو جی-20 اجلاس کے دوران روس اور یوکرین جنگ کے بارے میں اتفاقِ رائے قائم نہیں ہو سکا تھا جب کہ بنگلور میں وزرائے خزانہ کے اجلاس میں بھی کچھ اسی طرح ہوا۔
اجلاس کے اختتام پر جی-20 کے موجوہ صدر اور میزبان بھارت نے 'سمری اینڈ آؤٹ کم ڈاکیومنٹ' جاری کیا ہے جس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہےکہ بھارت کی انتھک کوششوں کے باوجود یوکرین جنگ کے سلسلے میں اختلافات ختم نہیں ہوئے۔
بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے مطابق اگر تمام امور پر ذہنی ہم آہنگی ہوتی تو ایک مشرکہ بیان جاری کیا جاتا لیکن ایسے کئی امور ہیں جن پر اختلافات بدستور موجود ہیں۔
اس معاملے پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ رواں برس نومبر میں نئی دہلی میں منعقد ہونے والے جی-20 کے مجوزہ سربراہ اجلاس میں ابھی کافی وقت ہے اور نئی دہلی کو امید ہے کہ اس کی جے-20 کی صدارت مایوسی کے نوٹ پر ختم نہیں ہوگی۔
لیکن تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوکرین جنگ کے تناظر میں بھارت کو اپنے غیر جانبدارانہ مؤقف کو برقرار رکھنے کا ایک مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ اس کی کوشش ہوگی کہ وہ جنگ کے سلسلے میں متضاد آرا رکھنے والے ملکوں کے ساتھ اپنے روابط کو بہتر سے بہتر بنائے۔
تاہم سابق سفارت کار اشوک سجن ہار کہتے ہیں کہ جی۔20 کا فورم اقتصادی امور کے لیے ہے۔ لہذا روس یوکرین تنازع اس فورم کے مینڈیٹ میں شامل نہیں، اور اگر اس تنازع پر اتفاق رائے نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اجلاس ناکام رہا۔
اشوک سجن ہار کہتے ہیں کہ جب بھی ایسی کانفرنسز ہوتی ہیں تو صرف ایجنڈے پر بات نہیں ہوتی بلکہ دوسری باتیں بھی اٹھتی ہیں اور میڈیا میں منفی باتیں ہی خبر بنتی ہیں۔
جی-20اجلاس کے انعقاد سے قبل ایسے بیانات آئے تھے جن سے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ بھارت یوکرین کے مسئلے پر اتفاق رائے قائم کرنے میں ناکام رہے گا۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بیان دیا تھا کہ یوکرین روس تنازع اجلاس میں چھایا رہے گا۔ جب کہ برطانیہ اور روس کی جانب سے الگ الگ بیانات میں اپنے اپنے مؤقف پر قائم رہنے کا اعادہ کیا گیا تھا۔
جہاں برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ اجلاس کے دوران روسی جارحیت کے خلاف موؑقف اختیار کریں گے وہیں روسی وزارتِ خارجہ کے ایک سخت بیان میں اس تنازع کے لیے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔
اگرچہ بھارت کے سیاست دانوں کی جانب سے دونوں اجلاسوں کے نتائج پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن سابق مرکزی وزیر اور سینئر کانگریس رہنما ششی تھرور نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے لفظ 'جنگ' کے استعمال میں جھجک کی وجہ سے بنگلور میں مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہو سکا۔
SEE ALSO: جی 20 وزارئے خارجہ کانفرنس مشترکہ اعلامیہ جاری کیے بغیر ختممیڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کو پہلے سے اس بات کا اندازہ تھا کہ یوکرین تنازع پر جی-20 ممالک کے درمیان اتفاقِ رائے قائم نہیں ہو سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اجلاس کے آغاز پر وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنی ریکارڈڈ ویڈیو میں رکن ملکوں سے اپیل کی تھی کہ وہ عالمی امور پر مشترکہ مؤقف اختیار کرنے کی کوشش کریں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اجلاس کے بعد جب ایس جے شنکر نے میڈیا کو بریفنگ دی تو اس وقت ان کے لہجے سے مایوسی کا اظہار ہو رہا تھا۔
اخبار ’اکنامک ٹائمز‘ کے ڈپلومیٹک افیئرز ایڈیٹر دیپانجن رائے چودھری کہتے ہیں بنگلور میں منعقد ہونے والے وزرائے خزانہ کے اجلاس میں یوکرین اور روس پر ہونے والی گفتگو میں زبان کی جو تندی و تیزی دیکھی گئی وہ نئی دہلی کے اجلاس میں نہیں تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا کے شہر بالی میں گزشتہ برس ہونے والی کانفرنس اور موجودہ کانفرنس میں فرق ہے۔ ان کے بقول بالی میں روس کے وزیرِ خارجہ نے واک آؤٹ کیا تھا جب کہ نئی دہلی کی کانفرنس میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
اخبار 'ہندوستان ٹائمز' نے باخبر ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ مشترکہ اعلامیے کے جاری نہ ہونے کی ایک کلیدی وجہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی جانب سے بالی ڈکلریشین میں اختیارکردہ بعض نکات سے ہٹ جانا ہے۔
نیوز ویب سائٹ 'دی کوینٹ‘ کی سینئر ایڈیٹر نشٹھا گوتم نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بھارت نے یوکرین کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے کافی جدوجہد کی ہے لیکن اس کوشش کو پہلا دھچکہ اس وقت لگا جب وزرائے خزانہ کے اجلاس میں مشترکہ اعلامیے کی جگہ پر سمری ڈاکومنٹ جاری کرنا پڑا۔
ان کے مطابق بھارت صدر پوٹن اور صدر زیلنسکی سے جنگ بند کرنے کی اپیل تو کرتا رہا ہےلیکن اس نے جنگ کے لیے کبھی بھی روس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا اور نہ ہی اس کی مذمت کی بلکہ اس نے پابندیوں کے باوجود روس سے تیل کی برآمدات میں اضافہ کیا ہے۔