"میرا بھائی 18 برس قید کاٹ چکا ہے، پاکستان اور چین کے درمیان معاہدہ بھی موجود ہے، لیکن اس کے باوجود میرا بھائی پاکستان نہیں آ رہا۔ تمام تر دستاویزات مکمل ہیں لیکن معمولی کاغذات کی وجہ سے آج تک وہ وہیں بیٹھا ہوا ہے۔"
یہ الفاظ ہیں چین کی جیل میں قید راحیل اختر کے بھائی سہیل اختر کے جو کہتے ہیں کہ پاکستانی عدالتوں کے احکامات اور پاکستان، چین معاہدے کے باوجود ہم اپنے بھائی کو واپس لانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔
چین میں قید افراد کے لواحقین نے منگل کو پاکستانی پارلیمنٹ کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ چین اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد وہاں قید پاکستانیوں کو وطن واپس کیوں نہیں لایا جا رہا۔
اس مظاہرہ میں کسی حکومتی شخصیت نے شرکت نہیں کی اور ایک گھنٹہ تک پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر رہنے کے بعد یہ تمام افراد پرامن طور پر منتشر ہو گئے تھے۔
چین اور پاکستان کے درمیان معاہدہ
چین اور پاکستان کے درمیان 2018 میں ہونے والے معاہدہ کے تحت چین اور پاکستان میں گرفتار ایسے افراد جنہیں ان کے جرائم پر عدالتوں کی طرف سے سزا سنائی جا چکی ہے وہ اپنی باقی سزا اپنے ملک کی جیلوں میں گزار سکتے ہیں۔
اس معاہدے پر دستخط کے بعد 2020 میں ہی چینی حکومت نے بھی اس معاہدہ کی توثیق کر دی تھی۔
اس معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے مختلف جزیات بھی طے کی جا چکی ہیں لیکن اس پر عمل درآمد ابھی تک مکمل طور پر نہیں ہو سکا۔
وزارتِ داخلہ کی طرف سے سزا یافتہ قیدیوں کی فہرستیں بھی تشکیل دی جا چکی ہیں تاہم ان کے پاکستانی ہونے کی تصدیق اور سفری دستاویزات تیار ہونے کے بعد انہیں پاکستان لایا جا سکے گا۔
پاکستانی واپس کیوں نہیں آ رہے؟
چین میں قید راحیل اختر کے بھائی سہیل اختر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا بھائی 18 برس سے چین میں قید ہے۔ اس کے حوالے سے ہم نے پاکستان کی عدالتوں میں درخواستیں دائر کیں جس پر 2018 میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ چھ ماہ کے اندر میرے بھائی کو واپس لایا جائے۔
اس حوالے سے وزارتِ داخلہ نے چینی حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا اور تین نومبر 2018 کو معاہدہ پر دستخط ہوئے جس کے بعد اس معاہدہ کی تمام جزیات طے ہونے کے بعد 15 اکتوبر 2020 کو اس پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے کام کا آغاز ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سے ہم نے کئی مرتبہ وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ سے رابطہ کیا ہے۔ لیکن معمولی دستاویزات کا کہہ کر تاخیر کی جا رہی ہے۔
سہیل اختر کا کہنا تھا کہ وزارتِ داخلہ کہہ رہی ہے کہ ہمارے پاس چین سے تصدیق شدہ کاپیاں موجود نہیں ہیں۔ اس پر ہمیں کہا جا رہا ہے کہ چینی حکام کو کہیں کہ وہ تصدیق شدہ کاغذ بھیجیں، ہم نے ان سے کہا کہ ہم چینی حکومت کو کیسے کہہ سکتے ہیں، آپ حکومتی سطح پر بات کریں، وہاں سے قیدی تصدیق شدہ کاغذات بھجوائیں لیکن جیل میں قید افراد سے ایسا مطالبہ ہی عجیب ہے۔
کتنے پاکستانی چین کی جیلوں میں موجود ہیں؟
سہیل اختر نے کہا کہ ہمارے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت وہاں کی جیلوں میں 533 قیدی موجود ہیں جن میں سے 235 کی نادرا کی طرف سے تصدیق بھی ہو چکی، ان میں سے بیشتر افراد کے اہلِ خانہ کے ساتھ ہمارے رابطے ہیں۔
اس بارے میں وزارتِ خارجہ کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2018 کے اختتام پر ایسے پاکستانیوں کی تعداد 484 تھی۔
قیدیوں کی حالتِ زار کیسی ہے؟
سہیل اختر کا کہنا ہے کہ وہاں چینی جیلوں میں پاکستانیوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، ہم کہتے ہیں کہ رہا نہ کرو لیکن کم سے کم وہاں سے یہاں لے کر آؤ، لوگ اپنے پیاروں سے ملاقات تو کر سکیں گے۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ پچھلے تین برسوں میں پانچ لاشیں واپس آئی ہیں جو لوگ جیلوں میں فوت ہو گئے ہیں۔ چین میں قیدیوں سے لگاتار کام لیا جاتا ہے اور بیمار ہونے کے باوجود ان سے کام لیا جاتا ہے۔
چین کے صوبہ گوانزو کے شہر لانزو میں قید نوید چوہدری کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں، ان کی بہن روبینہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی کو منشیات کے کیس میں عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔ شروع میں ہمیں کئی سال تک علم ہی نہ تھا، چار برس بعد پاکستانی سفارتِ خانہ کے لوگ ایک مرتبہ جیل گئے تو ہمیں پتا چلا کہ وہ لانزو کی جیل میں قید ہے۔
روبینہ کا کہنا تھا کہ میرے بھائی نے اگر جرم کیا ہے تو وہ سزا بھی بھگت رہا ہے لیکن ہماری خواہش صرف اتنی ہے کہ وہ یہ سزا اپنے ملک میں پوری کر لے۔ کئی برسوں سے ہم نے اسے دیکھا تک نہیں، اب وہ کینسر کا مریض بن چکا ہے اور پانچ ماہ اسپتال میں رہنے کے بعد اس وقت بھی جیل میں ہے، سخت بیماری کے باوجود اس سے مشقت کروائی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا ہے، وزیرِاعظم کے پورٹل پر درخواستیں دیں، ہر ایک سے گزارش کی کہ کسی طرح ہمارے بھائی کو وطن واپس لے آؤ لیکن کچھ نہ ہوا۔
روبینہ کا کہنا تھا کہ اب میں نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس پر وزارتِ داخلہ کو نوٹس جاری ہوا ہے، شاید کسی طرح میرا بھائی وطن آ سکے۔
واہ کینٹ کا شاہ رخ بھی منشیات اسمگلنگ کے کیس میں لانزو جیل میں گزشتہ 11 برسوں سے قید ہے۔ شاہ رخ کی بہن مومنہ نے کہا کہ ہمیں ہمارے بھائی کے متعلق کچھ پتہ نہ چل رہا تھا۔
کئی برس کے بعد اس کے بارے میں پتا چلا کہ وہ چین کی جیل میں ہے۔ اسے 15 برس کی سزا دی گئی جس میں سے وہ 11 برس کی سزا کاٹ چکا ہے۔ خاندان کا سب سے بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے سب امیدیں اسی سے تھیں لیکن اب اس کی زندگی اور وطن واپسی کا ہی انتظار ہے۔
مومنہ کہتی ہیں کہ جب معاہدہ بھی موجود ہے تو اسے اس کے جرم کی سزا پاکستان میں واپس لاکر پوری کروانے میں کیا مسئلہ ہے، میری والدہ کئی برسوں سے اس کے انتظار میں ہیں وہ کم سے کم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ تو سکیں گی، ہر ماہ صرف دس منٹ کے لیے فون کال کی اجازت دی جاتی ہے اور اگر کوئی سزا مل جائے تو دس منٹ بھی نہیں ملتے۔
میرا بھائی بیمار ہوا تو اس کے بعد بھی جیل میں اس سے غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا اور مشقت لگاتار کرواتے رہے۔ جس سے اس کی حالت اس قدر خراب ہوئی کہ اسے اسپتال داخل کروانا پڑا۔
مومنہ کا کہنا تھا کہ وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ اگر ہمارے پیاروں کے کیسز پر توجہ دیں تو وہ پاکستان آ کر اپنی سزا پوری کر سکتے ہیں۔
سہیل اختر کا کہنا تھا کہ وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ کے آپس کے معاملات کی وجہ سے ہمارے پیارے وطن واپس نہیں آ رہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ صرف 18 سے 20 افراد ہی آ سکیں گے جب کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تمام افراد پاکستان واپس آئیں، یہاں کم سے کم ان کے گھر والے انہیں قریب سے دیکھ تو سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت وہاں گرفتار افراد میں 20 خواتین بھی شامل ہیں۔
کئی کئی سال تک علم نہ تھا کہ ہمارے پیارے کہاں ہیں۔
مومنہ کا کہنا تھا کہ ہم نے چینی سفارت خانے کو بھی رابطہ کیا لیکن ہمیں کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ میرا بھائی ایک عرصہ سے وہاں بیمار ہے لیکن اس سے وہاں لگاتار کام کروایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی حالت مزید خراب ہو رہی ہے۔
نوید چوہدری کی بہن روبینہ نے کہا کہ گزشتہ دنوں ایک پاکستانی اس جیل سے واپس پاکستان آیا ہے، یہ شخص دو ماہ مزید صرف اس وجہ سے جیل میں رہا کہ پاکستان سفارت خانے کا کہنا تھا کہ اس کے گھر والے ٹکٹ کے پیسے دیں تو اسے بھجوایا جائے، لیکن وہ اس قدر استطاعت نہ رکھتے تھے جس کے بعد چینی حکومت نے انہیں ٹکٹ دیے کر پاکستان واپس بھجوایا۔
اس خبر کے حوالے سے چین کے ردِعمل کے لیے اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کے میڈیا سے منسلک مسٹر یانگ سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کی کوشش کی گئی اور سوال بھی بھجوائے گئے لیکن اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ کی طرف سے بھی اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا گیا تاہم ماضی میں حکومت کا کہنا تھا کہ اس معاہدہ کے بعد ان افراد کو پاکستان لایا جائے گا اور وہ یہاں پاکستان کی جیلوں میں اپنی قید مکمل کر سکیں گے۔